سید عاطف ندیمکالمز

جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاسی دھڑے

سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنیلوں نے بھی سیاسی میدان میں طبع آزمائی کی۔ پرویز مشرف اور ایوب خان نے اس مقصد کے لیے مسلم لیگ کا انتخاب کیا۔ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ ان کی زندگی میں ہی سیاسی طور پر دم توڑ گئی

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہی 1986 میں عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے ولی خان نے علیحدہ جماعت بنائی۔ اسی طرح معروف قوم پرست سیاست دان محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی نے بھی نیپ سے علیحدہ ہو کر 1970 میں پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تھی، جسے ان کے بیٹے نے 1989 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا موجودہ نام دیا۔
بلوچستان کے قوم پرست سیاستدان غوث بخش بزنجو بھی پاکستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل رہے۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے اپنی پرانی پارٹی کے نام پر پاکستان نیشنل پارٹی قائم کر لی جو بعد میں تقسیم کے مراحل سے گزر کر حاصل بزنجو مرحوم کی سربراہی میں نیشنل پارٹی کہلائی۔
بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی نیپ کا باقاعدہ حصہ نہیں رہے مگر اس کے قائدین سے قربت کی وجہ سے وہ سیاسی عمل کا حصہ رہے۔
ان کی قائم کردہ جماعت جمہوری وطن پارٹی کی قیادت ان کے پوتے کے ہاتھ میں ہے ۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی سب سے قدیم جماعت ہے۔ اس کے طلبا ونگ سے وابستہ رہنے والے لاتعداد رہنماؤں نے اس کی تنظیمی ساخت اور سخت گیر طریقہ کار کی وجہ سے الگ ہو کر دوسری سیاسی جماعتوں میں نمایاں عہدے حاصل کیے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی متحدہ ہندوستان کی جمعیت علمائے ہند کی ایک شاخ ہے۔ ان کے والد مفتی محمود 1962 میں ممبر اسمبلی بنے تو جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی حیثیت کا ظہور ہوا۔ انہیں اپنی جماعت میں موجود عبداللہ درخواستی کی مزاحمت کا سامنا رہا۔ اسی طرح جمیعت علمائے اسلام کا ایک گروپ سمیع الحق کی قیادت میں الگ ہو کر آئی جے آئی کے ساتھ شریک اقتدار رہا۔
جمیعت علمائے پاکستان شاہ احمد نورانی کے دور میں کراچی میں اثر و نفوذ رکھتی تھی۔ بعد میں عبدالستار نیازی اور حاجی حنیف طیب کے گروپوں کے الگ ہونے سے سیاسی طور پر کمزور ہو گئی۔
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی بنیادوں پر ایک اور جماعت پاکستان نیشنل کانگریس کے نام سے بھی قائم ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی ہندو کمیٹی نے تقسیم کے بعد آل انڈیا نیشنل کانگریس کی جگہ پاکستان نیشنل کانگریس قائم کی۔ اس جماعت کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں بھی نمائندگی حاصل رہی۔
سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنیلوں نے بھی سیاسی میدان میں طبع آزمائی کی۔ پرویز مشرف اور ایوب خان نے اس مقصد کے لیے مسلم لیگ کا انتخاب کیا۔ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ ان کی زندگی میں ہی سیاسی طور پر دم توڑ گئی۔
سابق فوجی حکمران ایوب خان نے 1963 میں مسلم لیگ کے ایک آنے کا ممبر بن کر باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ کے سابق صدر چوہدری خلیق الزماں کے کہنے پر وہ کنونشن لیگ کے سربراہ بھی بنے۔
اقتدار سے رخصتی کے بعد کنونشن لیگ نے انہیں اور انہوں نے کنونشن لیگ کو فراموش کر دیا۔
تیسرے آرمی چیف جنہوں نے سیاسی جماعت کے ذریعے انتخابی عمل کا حصہ بننے کی کوشش کی وہ اسلم بیگ ہیں۔ انہوں نے 1996 میں عوامی قیادت پارٹی بنائی۔
اسلم بیگ نے پہلے جونیجو لیگ کے ساتھ پرانے مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں 1996 میں پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام ہوئے تو انتخابی سیاست سے تائب ہو گئے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ راولپنڈی سازش کیس کے اہم کردار جنرل اکبر خان نے فوج سے نکالے جانے کے بعد ملت پارٹی کے نام سے جماعت قائم کی تھی۔ اکبر خان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر بھی رہے۔
اسی طرح مشرقی پاکستان کے سابق گورنر جنرل اعظم خان نے بھی جناح لیگ کے نام سے اپنی پارٹی بنائی۔ وہ کچھ عرصہ تک ایئر مارشل اصغر خان کی جسٹس پارٹی کا بھی حصہ رہے۔
جنرل ٹکا خان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے جبکہ ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل فضل حق سرحد مسلم لیگ کے صدر بھی بن گئے تھے۔ بلوچستان کے سابق گورنر عبدالقادر بلوچ کچھ عرصہ مسلم لیگ ن میں گزارنے کے بعد اس سے اپنا راستہ جدا کر چکے ہیں۔
پاکستان میں غلام محمد اور سکندر مرزا کے گورنر جنرل بننے سے بیوروکریسی کو اقتدار کی چاٹ لگی۔ ہماری سیاسی تاریخ میں دو بیوروکریٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی جماعتیں قائم کیں۔ ان میں سے ایک سابق وزیراعظم اور دوسرے صدر پاکستان رہ چکے تھے۔
چوہدری محمد علی نے 1956 میں وزیراعظم کے طور پر اقتدار سے بے دخلی کے بعد پہلے ’استحکام پاکستان تحریک‘ چلائی اور بعد میں پاکستان نظام اسلام پارٹی کے بانی صدر بنے۔ ان کی زندگی میں ہی یہ جماعت نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی میں ضم ہو گئی۔
سابق صدر فاروق لغاری دوسرے بیوروکریٹ تھے جنہوں نے 14 اگست 1998 کو ملت پارٹی کی بنیاد رکھی۔ بعد میں نیشنل الائنس کے نام سے 2002 میں اقدار کا حصہ رہے۔ یہ جماعت بعد میں مسلم لیگ ق کی نظر ہو گئی۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ میں حالات کا جبر اور اقتدار کی ہوس دونوں شامل ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button