سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق شہریوں پر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی حاضر سروس فوجی افسر کو قومی سلامتی کے خلاف سازش کے لیے اکسانا سنگین جرم ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقوں کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین نے کہا کہ اس صورت میں سویلینز کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے جب وہ بیرونی سازش کا حصہ ہوں۔
انہوں نے کہا کہ وقت آ چکا ہے کہ کھل کر حقوق کے لیے آواز بلند کی جائے۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا درست نہیں ہے۔‘
’ کوئی سویلین فوجی کو بغاوت کے لیے اکسائے تو ملٹری کورٹس کارروائی کر سکتی ہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پر مقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔‘