آپامنزہ جاویدکالمز

(تنقید یا اصلاح)….آپا منزہ جاوید.

رات کے کسی پہر سوچا ہو گا مل کر کھانا کھانے میں کتنا لطف ہے کھانے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے. اپنوں کے سنگ جہاں اپنے سے بڑوں میں بیٹھ کر خود کو چھوٹا محسوس کرتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں میں بیٹھ کر اپنے إپ کو بڑا محسوس کر کہ فرحت محسوس کی.

* عـــيـــدكُـم مُـبـــارك *

"تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْكُمْ”
"الله سبحانه وتعالیٰ ہمارے اور آپ کے (نیک اور صالح اعمال اپنی بارگاہ میں) قبول فرمائے.”
گزشتہ عید الاضحیٰ مبارک ہو
یقیناً آپ سب نے عید کی خوشیاں محسوس کی ہونگی آپ اپنے رشتے داروں ‘اپنے دوستوں کے سنگ خوب مسکراۓ ہونگے قہقہے لگانے ہونگے ملکر کھانا کھانے سے لطف اندوز ہوۓ ہونگے. رات کے کسی پہر سوچا ہو گا مل کر کھانا کھانے میں کتنا لطف ہے کھانے کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے. اپنوں کے سنگ جہاں اپنے سے بڑوں میں بیٹھ کر خود کو چھوٹا محسوس کرتے ہیں اور اپنے سے چھوٹوں میں بیٹھ کر اپنے إپ کو بڑا محسوس کر کہ فرحت محسوس کی.
یہی زندگی ہے خوشیوں کے پل کو باندھ لینا. چھوئی چھوٹی باتوں پر ہنس دینا دوسرے کی غلطی کو نظر انداز کرنا اسے اپنے گھر اپنے دسترخوان پر جگہ دینا’ اسے اپنا پن محسوس کروانا’ خیال رکھنا کہ اسے آپ کی کوئی بات بری نہ لگے وہ خوشی خوشی آپ کے گھر سے رخصت ہو. اس وقت کے گزرتے پل بہت اچھے یاد گار لمحے بن جاتے ہیں. دل اور دماغ پر کوئی بوجھ نہیں ہوتا خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں.
اسی کو عید کی خوشی کہتے ہیں کہ ہمارے رویے ہمارے اخلاق کی وجہ سے دوسرے کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل جاۓ. روز مرہ کے معمولات میں ایسا طرز عمل اپنانا کوئ مشکل کام نہیں جس عمل سے ہم کچھ خرچ کیے بغیر دوسروں میں خوشیاں بانٹ سکیں.
پس ہمیں ہر کام میں سے برائی تلاش کرنا چھوڑنا ہو گی. جیسے آج کل عید قربان کے موقعہ پر اکثر لوگوں کا لکھا ہوا پڑھا کہ لوگ قربانی آپے اتنی رقم خرچ کر کہ گوشت ٹھیک طریقے سے بانٹتے نہیں. غریبوں کا حصہ بھی خود کھا جاتے ہیں. ایسی اور بھی بہت سی سطریں پڑھنے کو ملتی ہیں. جس سے قربانی کرنے والے سے نفرت کا اظہار دیکھائی دیتا ہے.
جیسا کہ! اس عید جانوروں کی قربانی کے ساتھ سخت لہجے، تلخیاں، ناراضگی، نفرتوں کو الله کیلئے قربان کریں، محبتیں بانٹیں دلوں کو صاف کریں، اپنے پیاروں سے ملیں اور اپنے کردار کو اسلام کے سنہرے اصولوں پر ڈھال کر عمدہ زندگیاں گزاریں.*
دوستو ! خون آلود چھریوں کو بکروں کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کی میل کھرچنے کے لیئے بھی استعمال کیجیئے۔اور دھیان رکھیئے!خون کی مہک کسی سفید پوش ، بیمار مصیبت زدہ زندگی کی ضرورت تلے نہ کچلی جائیں.
کیا آپ نے قربانی کے ساتھ نفرتیں بھی قربان کر دی.
قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کدروتوں کو بھی قربان کر دیجیۓ.
کوئی لکھ دیتا ہے قربانی دکھاوے کے لیے کی جاتی ہے. کہیں لکھا ہے جانور کی قربانی کے ساتھ ساتھاپنے اندر کے جانور کو بھی ذبح کر دیجیۓ
اور بھی بہت سے الفاظ ہیں کیا کیا لکھا جاۓ یقیناً آپ نے بھی پڑھے ہوں گے میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں نہ دوسرے میں نقص نکلنا ہے.
پس میرے ذہن پے ایسے الفاظ بھاری رہتے ہیں مجھے لگتا ہے ایسے الفاظ سے ہم سواۓ نفرت پھیلانے کے کچھ حاصل وصول نہیں کرتے.
سواۓ اس کے کہ معاشرے میں محبت کو کچلنے میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں
اگر ہمارا مقصد معاشرے کی اصلاح ہے تو ہم عام سادہ الفاظ میں قربانی کے گوشت کی تقسیم کے بارے میں محبت اور خلوص کے ساتھ قربانی کرنے والے کو گوشت تقسیم کرنے کے طریقے سمجھا سکتے ہیں.
اگر اللہ نے ہمیں لکھنے کا موقعہ دیا ہے تو ہم اپنے الفاظ کو نفرت کا روپ کیوں دیتے ہیں محبت کا روپ بھی تو دیے سکتے ہیں. پس ہمیں سیکھنا یہ ہے کہ اصلاح کیسے کرتے ہیں اصلاح کرنا کسے کہتے ہیں.
ہمیں یاد رکھنا ہے کہ تنقید دُوری پیدا کرتی ہے نفرت پھیلاتی ہے.
اور نفرت دل و دماغ کے دروازے بند کر دیتی ہے. اس پے دستک کام نہیں کرتی نفرت اندھا بہرا گُھونگا بنا دیتی ہے وہ درندگی سکھاتی ہے. بے رحمی سکھاتی ہے.
تو کیا ہم معاشرے میں اپنے الفاظ سے زہر پھلا رہے ہیں.
کیا ہم اپنی نسلوں کے لیے کانٹے بیج رہے ہیں اگر ہمیں اپنی نسلوں سے محبت ہے اپنے معاشرے کی محبت بھری تشکیل کرنا مقسود ہے
تو اپنے الفاظ کو بدلنا ہو گا.
اپنے الفاظ کو محبت کی چاشنی میں ڈبونا ہو گا.
اگر دیکھیں کہیں کوئی غلطی ہو رہی ہے تو اسے اصلاح کا جامہ پہنا کر محبت کے ساتھ نیاء روپ بخشیے.
پھر دیکھنا کیسے وہ برائی آہستہ آہستہ اپنے اختتام کو پہنچتی ہے. کیسےاپنے پیچھے آنے والوں کے لیے راستہ صاف ہوتا ہے ہمیں راستے کے کانٹے چننا ہیں. کیونکہ آگے چلنے والے ہمیشہ پیچھے آنے والوں کے لیے منزل کا نشان ہوتے ہیں آپکے قدموں کے نشان دوسروں کے لیے راہنمائی کرتے ہیں. ایسے ہی ہمارے لکھے گے الفاظ دوسروں کے لیے راہنماہ ہوتے ہیں.
ایسا پس ابھی عید قربان پر ہی ہوتا ہے ایسے تلخ الفاظ کا ذخیرہ ہمارے ہر مزہبی تہوار ہر سامنے آتا ہے جس سے معاشرءےمیں عجیب سا ماحول بنتا ہے. روزے آئیں تو لکھا جاتا ہے روزہ تو رکھ لیا ہے نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کتنی کی روزہ آنکھ زبان کا بھی رکھا کریں. اگر کوئی نمازیں پابندی سے پڑھنے لگے تو بھی باتیں ہاں روزے روزے ہی نماز پڑھی جائیں گی روزے ختم ہوتے ہی تمہاری نمازیں بھی ختم.
وہ افطاری ایسے کرتا ہے وہ روزے کے وقت اتنا خرچہ کیوں کر رہا ہے. اتنے خرچے میں مسکین کا ہی روزہ ہی کھلوا دیتے ایسے طعنہ زنی سے بگاڑ پیدا ہو رہا ہے ہمیں اپنے لفظوں کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے جس سے دوسرے کو سمجھ بھی آجاۓ کہ وہ کہاں غلطی کر رہا ہے. کہاں اس سے کوہتائی ہو رہی ہے. وہ خوشی خوشی اپنی اصلاح ایسے کرے کہ معاشرے کو فائدہ پہنچے.
سب ایک دوسرے کے لیے مدد گار اور فائدہ مند بن سکیں ہم نیکی کرتے خوشی محسوس کریں. اور دوسروں کی مدد کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.
ہمیں ایک دوسرے کی نیکی کو سراہنا چاہیے اسکی چھوٹی چھوٹی اچھائی اور بھلائی پے اسکے عمل خیر کی تعریف کرنی چاہیے ایسا کرنے سے دوسرے میں اور اچھا کرنے کا شوق ابھرتا ہے. نہ کہ تنقید کرکہ اسے شرمندہ کریں.
ہمیں پس ایک ماہر استاد کی طرح محبت سے اچھائی کی ترغیب دینی ہے.مجھے معلوم ہے میری باتوں سے کچھ کو اختلاف بھی ہو گا لیکن مجھے اپنے لکھنے سے مقصد پورا ہوتا نظر آتا ہے.
ہو سکتا ہے میری تحریر بہت کم لوگ پڑھیں بہت کم سمجھ سکیں کہ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں پر مجھے پھر بھی اطمینان ہے کہ میرے ذہن میں جو اصلاح کا پہلو تھا وہ میں نے کچھ حد تک بیان کر دیاہے.
باقی اللہ سے دعا ہے وہ مجھے اور میری تحریر کے قاری کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ
خوش رہیں خوشیاں بانٹیں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button