اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

پاکستان میں مقیم ہزارہ افغان: ’طالبان ہمیں مسلمان نہیں سمجھتے، افغانستان میں ہو سکتا ہے موت ہمارا انتظار کر رہی ہو‘

پاکستان بھر میں پولیس کی جانب سے ایسے غیر اعلانیہ چھاپے تیزی سے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کریک ڈاؤن ہے جو ان ہزاروں غیر ملکیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا قانونی حق نہیں۔

ایک ہلتی ہوئی موبائل فون ویڈیو میں ایک خاتون کی آواز سے گھبراہٹ عیاں ہے۔ یہ ویڈیو دروازے میں موجود ایک سوراخ سے بنائی گئی ہے جس میں موبائل کیمرہ بار بار فوکس میں آ جا رہا ہے۔
اس گھر کے باہر پاکستانی پولیس موجود ہے اور غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے دستاویزات دیکھ رہی ہے۔ افسران متعدد دستاویزات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور ان کے اردگرد متعدد افراد منتظر کھڑے ہیں۔
اس کے بعد ویڈیو بند ہو جاتی ہے۔
پاکستان بھر میں پولیس کی جانب سے ایسے غیر اعلانیہ چھاپے تیزی سے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا کریک ڈاؤن ہے جو ان ہزاروں غیر ملکیوں کے خلاف کیا جا رہا ہے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا قانونی حق نہیں۔
ان متاثرہ افراد میں سے ایک بڑی تعداد افغانوں کی ہے جنھیں ملک سے ڈی پورٹ ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ طالبان کی جانب سے سنہ 2021 میں کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے اکثر افغان واپس جانے سے خائف ہیں۔
ان میں صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن، ایل جی بی ٹی کمیونٹی کے اراکین، ایسے کانٹریکٹرز جنھوں نے امریکی اتحادی افواج یا افغان فوج کے ساتھ کام کیا اور وہ خواتین اور لڑکیاں جو اب افغانستان میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں۔
ہزارہ برادری کی اکثریت شیعہ مسلمان ہیں جنھیں سنی انتہا پسندوں کی جانب سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ان فرقوں میں متعدد اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کے باعث دونوں برادریوں کے درمیان موجود فرقہ وارانہ تقسیم ان کے درمیان خلیج بڑھا دیتی ہے۔
افغانستان میں نشانہ بنائے جانے کے خوف سے اکثر ہزارہ سنہ 2021 کے بعد سے پاکستان منتقل ہو گئے تھے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button