سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز اسلام آباد کاپاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کےاقدامات پر سیمینار کا انعقاد.
ائیر مارشل خان نے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری اور غیر عسکری دونوں طریقوں کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا اور معاشرے میں نفرت اور عدم برداشت سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں پر زور دیا۔
اسلام آبادپاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی): سینٹر فار ایروسپیس اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز اسلام آباد نے پاکستان میں پرتشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کےاقدامات پر روشنی ڈالنے کی غرض سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔ اس موقع پر محمد علی بابا خیل،ایڈیشنل آئی جی آپریشنز خیبر پختون خواہ پولیس، محترمہ عظیمہ چیمہ، ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ سٹریٹجی،Verso کنسلٹنٹنگ اور ایس ایس پی ڈاکٹر فرحان زاہد، بین االقوامی انسدادی دہشت گردی کے ماہر، نےمتعلقہ امور پربصیرت انگیز گفتگو کی۔جناب محمد علی بابا خیل نے پاکستان کی انتہا پسندی کے خالف حکمت عملی کی کامیابیوں اور درپیش چیلنجز کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر ریاستی شدت پسند عناصر ٹیکنالوجی کو اپنے فائدے کے لیےریاست سے کہیں زیادہ موثر انداز میں استعمال کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ ریاست پالیسی کا موثر نفاذ، نگرانی کا نظام اور عوامی آگہی کو یقینی اور موثر بنائے۔ بابا خیل صاحب کا کہنا تھا کہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ نسلی تفریق، فرقہ وارانہ تضادات، ترسیل خدمت اور سیاسی پسماندگی جیسے عوامل کا جائزہ لیا جائے۔ محترمہ عظیمہ چیمہ نے پرتشدد انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں سول سوسائٹی آرگنائزیشنز (CSOs) کے اہم کردار پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پرتشدد انتہا پسندی کا شکار صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک اس سے متاثر ہیں۔ محترمہ چیمہ نے ریگولیٹری فریم ورک کی وجہ سے CSOs کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالی اور آن الئن نفرت انگیز تقاریر اور غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع پالیسی فریم ورک اپنانے کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا۔ ڈاکٹر فرحان زاہد نےانسداد انتہا پسندی کے لیے کام کرنے والے بین االقوامی اداروں اور اقوام متحدہ کے ساتھ شراکت داری کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں ٹیکنالوجی کے کردار پر روشنی ڈالی، جس میں آن الئن پلیٹ فارمز کے لیے مضبوط نگرانی کے انتظام اور تعلیمی نصاب میں انسداد انتہا پسندی بیانیہ کا انضمام شامل ہے۔ سیمینار کے موڈریٹر ائیر مارشل فاروق حبیب )ریٹائرڈ( نے اس ضمن میں اصطالحات میں موجود تضاد اور اس کے مضمرات کی بات کی۔ انہوں نے انتہا پسندی میں کردار ادا کرنے والے بنیادی مسائل،جیسے کہ معاشرے میں تشدد کے پھیالؤ اور اس طرف عدم توجہی، عقیدے میں سیاست کی آمیزش، اور ماضی اور مستقبل کے بارے میں غلط سوچ جیسے رجحانات پر قابو پانے پر زور دیا۔ انکا کہنا تھا کہ یہ صرف ایک سیکورٹی کا معاملہ نہیں بلکہ ہمہ جہتی مسئلہ ہے جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
پریزیڈنٹ CASS، ایئر مارشل فرحت حسین خان (ریٹائرڈ)نے مقاصد کی تشکیل اور موثر حکمت عملی بنانے میں قومی مفادات کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے قومی مفادات کو دستاویز کرنےاورشفاف طریقے سے بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ائیر مارشل فرحت حسین خان نے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری اور غیر عسکری دونوں طریقوں کی اہمیت کی طرف بھی اشارہ کیا اور معاشرے میں نفرت اور عدم برداشت سے نمٹنے کے لیے مربوط کوششوں پر زور دیا۔