حیات عبداللہکالمز

یہ بستی پتھروں کی ہے یہاں کوئی نہیں سنتا ۔۔۔حیات عبداللہ

سرگودھا سے تعلق رکھنے والی ایک چودہ سالہ گھریلو ملازمہ بچی رضوانہ کو ایک جج کی اہلیہ ڈنڈوں سے مارتی ہے، ایسے جبر و تشدد میں فرعونیت بھی شرما جائے کہ زخم پرانا ہونے کی وجہ سے بچی کے سَر میں کیڑے پڑ گئے، اس کے سَر کا زخم آنکھوں تک اتر آیا، ڈاکٹرز کے مطابق اس کے دانت، بازو، ٹانگیں اور پسلیاں توڑ دی گئی ہیں

ہماری شامیں سسک رہی ہیں، ہماری صبحیں اداسیوں کا مسکن بن چکی ہیں، ہمارے دن اور راتیں ہماری بے حسی پر نوحہ کناں ہیں، اب تو ایسے دل فگار سانحات کو سہتے کئی سال بیت چلے ہیں، مگر ان تمام سانحوں سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ یہاں خوں خوار واقعات کے ہول ناک کرداروں کو بھی سزا سے بچا لیا جاتا ہے، یہاں خوں چکاں المیوں کے سفاک اور قزاق مجرموں کو اتنی کمال مہارت سے بری الذمہ قرار دے دیا جاتا ہے کہ چشمِ فلک بھی اشک فشانی پر مجبور ہو جاتی ہو گی۔یہاں جگر پاش واقعہ یہ ہے کہ اگر مجرم طاقت ور ہے، تو چاہے وہ ہماری اسلامی، اخلاقی اور ثقافتی اقدار کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دے، اس خناس کو محض چند ایام میں یوں معزز و مکرم بنا کر پیش کر دیا جاتا ہے کہ لوگ جرم کی نشان دہی کرنے والے ہی کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں۔آئیے! جگر سوز واقعات کے ہجومِ بے کراں میں سے دو مناظر آپ کو دِکھاؤں۔
یہ اسلام آباد ہے، یہاں فرمان اللہ نام کے ایک ” بہت بڑے مجرم “ کو پکڑ لیا جاتا ہے، اسے فوری طور پر تین ماہ قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی جاتی ہے، وہ ” گھناؤنا مجرم “ قفلی ( قلفی )کی رہڑی لگاتا ہے، اس کی رہڑی ناجائز تجاوزات کے زمرے میں آتی تھی، جس سے ملک و قوم کا بے تحاشا نقصان ہو رہا تھا سو اس ” ناہنجار “ کو اتنی کڑی سزا سنا دی گئی کہ وہ تا زیست اس سزا کی اذیت کے حصار سے نکل ہی نہیں سکے گا۔
اسی اسلام آباد میں ایک اور خونیں منظر نے بھی لوگوں کے دل گھائل کر دیے، وہاں سرگودھا سے تعلق رکھنے والی ایک چودہ سالہ گھریلو ملازمہ بچی رضوانہ کو ایک جج کی اہلیہ ڈنڈوں سے مارتی ہے، ایسے جبر و تشدد میں فرعونیت بھی شرما جائے کہ زخم پرانا ہونے کی وجہ سے بچی کے سَر میں کیڑے پڑ گئے، اس کے سَر کا زخم آنکھوں تک اتر آیا، ڈاکٹرز کے مطابق اس کے دانت، بازو، ٹانگیں اور پسلیاں توڑ دی گئی ہیں، میرے اللہ! تعلیم اور تہذیب کے سانچے میں یہ کیسا روح فرسا ستم ڈھا دیا گیا ہے کہ رضوانہ کے گردے اور جگر متاثر ہیں، اس کے ذہنی توازن میں بھی نقص پیدا ہو چکا ہے، ڈی ایچ کیو سرگودھا کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے جسم پر 15 جگہ زخموں کے نشانات ہیں، میڈیکل رپورٹ کے مطابق ان زخموں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں، ڈی پی او سرگودھا فیصل کامران نے دلیری دِکھائی اور ایف آئی آر درج کر لی مگر گرفتاری نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ تشدد کرنے والی خاتون کے ہاتھ بڑے مضبوط پیں۔پنجاب حکومت نے خفیف سی جُھرجُھری لی تھی مگر پھر بے رخی اور بے اعتنائی برتنا شروع کر دی۔یہاں کیسے کیسے پُرہول کردار موجود ہیں! اور اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ ان مکروہ، منحوس، بد وضع اور بے ڈھنگی بلاؤں کے کرتوتوں کو ہاتھ ڈالنے والا بھی کوئی نہیں۔
ایک قفلی فروش کے لیے قانون کی مستعدی اور پھرتیاں سب نے دیکھ لیں اور یہ بھی ملاحظہ کر لیا کہ نادار اور مفلس کے لیے قانون کے ہاتھ کتنے آہنی ہیں اور طاقت ور کے لیے اسی قانون کے ہاتھ کتنے نرم، ملائم، نازک اور گداز ہیں۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں ظالم جتنا بھی سفاک، دجال اور سنگلاخ دل ہو، اسے کچھ نہ کچھ ہم درد اور حمایتی ضرور مل جاتے ہیں۔
ڈری، سہمی اور سمٹی رضوانہ کا سارا وجود گھائل ہے، پِیپ پڑے اس کے زخم ہمارے سماج کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہیں۔اے میری پیاری بیٹی رضوانہ! تم یہ ستم سہتی رہو کہ یہاں انصاف بھی ظالموں کی حمایت ہی میں جاتا ہے، تم یہ حقیقت بھی جان لو کہ خدا کے سوا تمھارا مدد گار کوئی نہیں ہے، تم شہباز شریف کی بیٹی بھی نہیں ہو، آصف زرداری سے بھی تمھارا کوئی تعلق نہیں، تم عمران خان کی بھی کچھ نہیں لگتی، ان میں سے کوئی تمھارے حق میں دو بول بھی نہیں کہے گا۔سنو! بیٹی یہاں لوگ نہیں پتھر بستے ہیں۔۔۔پتھر :
کسی مظلوم کی آہ و فغاں کوئی نہیں سنتا
یہ بستی پتھروں کی ہے یہاں کوئی نہیں سنتا
دراصل کیڑے رضوانہ کے زخموں میں نہیں بلکہ ہمارے ضمیر میں پڑ چکے ہیں، زخموں سے لتھڑی تو ہماری حمیت ہے، آج ہمارے احساسات اور ادراک کے وجود لیرولیر ہیں۔اگرچہ ہماری اخلاقی اقدار سسکیاں لے رہی ہیں، مگر مَیں مایوس بھی ہر گز نہیں ہوں، اس لیے کہ اگر ایک طرف اس طرح کے جبر و جور سے ہمارا دَم گُھٹا جا رہا ہے تو دوسری سمت سے میرے احساس کے دریچے میں لاہور کے ڈی آئی جی محبوب اسلم کے اعلا و ارفع کردار کی نشاط انگیز خوشبوئیں بھی دل و دماغ کو مہکا رہی ہیں۔درجنوں یتیم بچوں کے سَروں پر دستِ شفقت رکھ کر ان کی پرورش کرنے والے محبوب اسلم اس سماج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک تابندہ اور درخشندہ مثال ہیں، ہمارے معاشرے کے لیے ایک ڈی آئی جی کا اجلا کردار بڑا ہی راحت آمیز ہے، محبوب اسلم کے لیے احترام سے میری پلکیں جھکی ہوئی ہیں اور میرا دل ان کی عظمت کو سلیوٹ پیش کر رہا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button