ماہرین کے خیال میں اگلے تین چار برس عمران خان کو اب سیاسی کی بجائے قانونی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے عمران خان کو دی جانے والی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس بات کا امکان ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ان کو دی جانے والی سزا سپریم کورٹ سے معطل ہو سکتی ہے اور وہ اگلے ہی ہفتے جیل سے باہر آ سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں اب دیگر مقدمات سے نجات کے لیے قانونی جنگ لڑنا ہو گی۔
توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد کی مقامی عدالت سے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا اور اس کے نتیجے میں نااہلی کے بعد عمران خان کے سیاسی مستقبل پر منڈلاتے سیاہ بادل مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
ماہرین کے خیال میں اگلے تین چار برس ان کو اب سیاسی کی بجائے قانونی جنگ لڑنے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری نے عمران خان کو دی جانے والی سزا پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس بات کا امکان ہے کہ توشہ خانہ کیس میں ان کو دی جانے والی سزا سپریم کورٹ سے معطل ہو سکتی ہے اور وہ اگلے ہی ہفتے جیل سے باہر آ سکتے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں اب دیگر مقدمات سے نجات کے لیے قانونی جنگ لڑنا ہو گی۔
انہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کو مقامی عدالت سے ریلیف مل سکتا تھا جو انہیں نہیں ملا ، اور اگر انہیں ہائی کورٹ سے بھی ریلیف نہیں ملتا تو پھر یہ معاملہ سپریم کورٹ جائے گا اور حتمی فیصلہ وہیں ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں اعلٰی عدالتوں سے ریلیف ملے اور آخر میں اس مقدمے کا فیصلہ ان کے حق میں آ جائے لیکن اس کے لیے انہیں انتظار کرنا پڑے گا۔‘
اکرام چوہدری کے مطابق عمران خان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں دوسرے مقدمات بھی ہیں جن پر کارروائی ہو رہی ہے اور ان میں بھی ان کو سزا ہو سکتی ہے۔ اس لیے اب آنے والے مہینوں اور کچھ برسوں تک انہیں سخت قانونی جدوجہد کرنا پڑے گی۔
سینئیر قانون دان حسن رشید صدیقی کے مطابق عمران خان کو اپیل کا خودکار حق حاصل نہیں ہے۔
’اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ اپیل کی سماعت نہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں، اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مقدمہ کوئی اہم قانونی مسئلہ نہیں اٹھاتا۔‘
انہوں نےبتایا کہ اس صورت میں ممکن ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ عمران خان کی اپیل پر سماعت نہ کرنے کا فیصلہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’توشہ خانہ کیس ایک پیچیدہ قانونی معاملہ ہے، اور یہ ممکن ہے کہ عدالتیں یہ سمجھیں کہ یہ مقدمہ کوئی اہم قانونی مسئلہ نہیں اٹھاتا جس کا فیصلہ اعلٰی عدالت کو کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ عدالتیں عمران خان کی اپیل سننے کا فیصلہ کر دیں۔‘
حسن رشید صدیقی کے مطابق توشہ خانہ کے مقدمے نے بہت زیادہ لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے، اور عدالتیں توشہ خانہ کے معاملے پر قانون کی وضاحت کرنا چاہیں گی۔
’انہوں نے کہا کہ ’توشہ خانہ کیس کے فیصلے کے خلاف عمران خان اپنی اپیل میں کامیاب ہوں گے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ تاہم انہیں اپیل کرنے کا حق حاصل ہے، اور اسے عدالتوں سے منصفانہ سماعت حاصل کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔‘
عمران خان کی مقبولیت میں کمی کا امکان ہے؟
سیاسی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ کے بانی صدر احمد بلال محبوب کا ماننا ہے کہ توشہ خانہ کے مقدمے اور دیگر مقدموں کا فیصلہ جو بھی ہو یہ اب حقیقت ہے کہ اس فیصلے سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل گہنا گیا ہے اور آنے والے انتخابات میں ان کے آنے اور کامیاب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
’ہماری تاریخ ہے کہ انتخابات سے پہلے جن سیاسی قائدین کو باہر کرنے کے لیے اقدامات کروائے جاتے ہیں ان کو پھر ان انتخابات میں فوری طور پر واپس نہیں آنے دیا جاتا۔ اگلے چند برس ان کی سیاسی نہیں بلکہ طویل قانونی جدوجہد کے ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ توشہ خانہ معاملہ کم از کم دو اور مرحلوں میں جائے گا اور یہ ایک طویل قانونی جدوجہد ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر ان کو اس مقدمے میں سزا ہو جانے کا اثر عوامی رائے پر پڑے گا۔‘
احمد بلال محبوب کے مطابق عمران خان کو دی جانے والی یہ سزا اور گرفتاری ہونا ان کے اپنے طے کیے گیے اعلٰی اخلاقی معیار کو نقصان پہنچائے گی اور ان کے حمایتیوں اور ووٹرز کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ اب وہ ناقابل شکست نہیں رہے۔
’اس بات کا امکان موجود ہے کہ عمران خان کے حمایتیوں میں کمی آئے گی۔ پاکستان میں ووٹرز بے شک اپنے رہنماووں سے محبت کرتے ہوں لیکن جب انہیں لگتا ہے کہ اب ان کا قائد انتخابات نہیں جیت سکتا اور حکومت میں نہیں آ سکتا تو وہ پھر باہر نہیں نکلتے اور مایوس ہو کر گھر بیٹھ جاتے ہیں، یا پھر وہ ایسے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں جن کے جیتنے کے امکانات ہوتے ہیں اور وہ ان کے روز مرہ کے مسائل حل کروانے میں ان کے کام آ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں آنے والے انتخابات میں عمران خان واپس نہیں آ سکیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں کسی نقطے پر ان کے خلاف قانونی صورت حال بدل جائے لیکن بظاہر ایک طویل قانونی جنگ ان کی منتظر ہے۔ اور ان کے لیے صورت حال بہتر ہونے میں تین سے چار سال لگ سکتے ہیں۔‘
احمد بلال محبوب کا مزید کہنا تھا کہ اس مرتبہ ان (عمران خان) کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے بھی علامتی ہی ہوں گے۔
’ماضی میں عمران خان کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر پولیس نے کافی سختی دکھائی تھی۔ اب بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ سختی ہو گی، اس لیے اب ان کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ مظاہروں کی بجائے قانونی جنگ ہی لڑیں۔‘