
دمشق میں اسرائیلی فضائی حملے: صدارتی محل اور وزارتِ دفاع کے قریب دھماکے، اسرائیل کی شامی حکومت کو دروز اقلیت کے خلاف کارروائی سے باز رہنے کی "سزا”
اگر اسرائیل اور شام کے درمیان یہ کشیدگی کم نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں پورے مشرقِ وسطیٰ کا امن مزید خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
دمشق / یروشلم – عالمی رپورٹرز ڈیسک
بدھ کی صبح دمشق ایک بار پھر جنگی طیاروں کی گھن گرج اور دھماکوں کی لپیٹ میں آ گیا جب اسرائیلی فضائیہ نے شام کے دارالحکومت میں صدارتی محل اور وزارتِ دفاع کے مرکزی ہیڈکوارٹرز کے قریب متعدد فضائی حملے کیے۔ شام کی وزارتِ صحت کے مطابق ان حملوں میں ایک شہری ہلاک اور 18 زخمی ہوئے ہیں۔
یہ حملے اسرائیل کی جانب سے اس انتباہ کے فوراً بعد سامنے آئے ہیں جس میں شامی حکومت کو دروز اقلیت کے خلاف کارروائیوں سے باز رہنے کا حکم دیا گیا تھا۔
"اُمیہ اسکوائر کے قریب حملے، فوجی ہیڈکوارٹرز کو نشانہ بنایا گیا”
شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے ان حملوں کی فوری تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ:
"اسرائیلی قابض افواج نے دمشق کے قلب میں واقع اُمیہ اسکوائر کے نزدیک ایک نئی جارحیت کی، جس میں شامی فوج کے مرکزی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔”
الجزیرہ ٹی وی نے اپنی براہ راست نشریات میں حملے کی تصاویر نشر کیں، جن میں بلند عمارتوں کے اطراف میں دھواں اٹھتا اور تباہ شدہ ڈھانچے دکھائی دیے۔ دمشق کے کئی علاقوں میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس سے شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل گیا۔
اسرائیلی وزیر دفاع کا سخت انتباہ: ’’اب دردناک ضربیں لگائی جائیں گی‘‘
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے حملوں کے بعد ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے کہا:
’’دمشق کو دیا گیا انتباہ ختم ہو گیا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دردناک ضربیں لگائی جائیں۔‘‘
ان کے مطابق اسرائیل اب شام کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیوں کا آغاز کرے گا، خاص طور پر ان مقامات پر جو دروز اقلیت پر حملوں سے وابستہ قوتوں کے زیرِ استعمال ہیں۔
انہوں نے مزید کہا:
"ہم سویدا میں ان تمام عناصر کو ختم کریں گے جو دروز باشندوں پر حملوں میں ملوث ہیں۔ جب تک دروز شہریوں کی مکمل واپسی اور تحفظ یقینی نہیں بنایا جاتا، یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔”
سویدا کی صورتحال اور دروز اقلیت کا معاملہ
منگل کو شامی حکومت نے جنوبی شہر سویدا میں اپنی فوجیں تعینات کی تھیں۔ یہ علاقہ اکثریتی طور پر دروز برادری پر مشتمل ہے جو ماضی میں حکومت سے نیم خودمختار حیثیت میں رہتے آئے ہیں۔
تاہم حالیہ مہینوں میں دروز جنگجوؤں اور شامی افواج کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی۔ اطلاعات کے مطابق شامی فوج نے سویدا پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں جھڑپیں ہوئیں اور دروز رہنماؤں نے عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل کی۔
اسرائیل، جو دنیا بھر میں دروز اقلیت کے لیے ہمدردانہ موقف رکھتا ہے، نے شام کو خبردار کیا تھا کہ اگر دروز شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تو فوجی ردعمل آئے گا۔ بدھ کے روز ہونے والے فضائی حملے اسی انتباہ کا عملی مظاہرہ سمجھے جا رہے ہیں۔
علاقائی ردعمل اور خطرناک منظرنامہ
شام کے سرکاری ذرائع ابلاغ اور حزب اختلاف کے مبصرین نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ’’ریاستی جارحیت‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شام اور اسرائیل کے مابین کشیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہو گا۔
ایران نواز عناصر نے بھی اسرائیل کو ’’علاقائی آگ سے کھیلنے‘‘ کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور کسی بھی ’’بڑی جارحیت‘‘ کی صورت میں جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔
لبنان میں حزب اللہ کے قریبی ذرائع کے مطابق، اگر اسرائیلی کارروائیاں شام کے جنوب تک محدود نہ رہیں تو لبنان اور جنوبی شام میں "جوابی اقدامات” پر غور کیا جا سکتا ہے۔
دمشق: امن کا خواب یا جنگ کا میدان؟
دمشق، جو کبھی شام کی شاندار تاریخ، ثقافت اور تمدن کا مرکز تھا، اب ایک بار پھر خطے کی بڑھتی ہوئی جنگی سیاست کی زد میں ہے۔ صدارتی محل اور وزارتِ دفاع کے قریب اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ جنگ کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق اگر اسرائیل اور شام کے درمیان براہ راست محاذ آرائی شدت اختیار کرتی ہے تو ایران، حزب اللہ، روس اور حتیٰ کہ امریکہ جیسے بین الاقوامی فریق بھی اس تناؤ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
امن ایک بار پھر پسِ پردہ
اسرائیلی حملے نے ایک مرتبہ پھر شامی سرزمین پر جاری تنازعات کو بھڑکا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف شامی عوام اب بھی خانہ جنگی، مہنگائی اور انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، وہیں اب بین الاقوامی طاقتوں کے مفادات نے دمشق کو جیوپولیٹیکل میدان جنگ میں بدل دیا ہے۔
اگر اسرائیل اور شام کے درمیان یہ کشیدگی کم نہ ہوئی تو آنے والے دنوں میں پورے مشرقِ وسطیٰ کا امن مزید خطرے میں پڑ سکتا ہے۔



