
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’عمران خان کو سزا ملی تو ہمیں اس کی قطعاً کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ مٹھائی بانٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس نے ایسا کیا اس نے بالکل غلط کیا۔‘
بدھ کو قومی اسمبلی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم کے نام پر اپوزیشن لیڈر کے ساتھ مشاورت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’راجہ ریاض سے کل ملاقات کروں گا۔ آئین تین دن کی مہلت دیتا ہے۔ اگر ہم فیصلہ نہ کر سکے تو معاملہ ہاوس کو بھیج دیں گے۔‘
اس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ان کی پوری کوشش ہوگی وزیراعظم کے ساتھ مشاورت میں نگران وزیراعظم کا نام فائنل کر لیں۔
خیال رہے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی نگران وزیراعظم کے حوالے سے ملاقات ہے۔
جیو نیوز سے گفتگو میں جب راجہ ریاض سے سوال کیا گیا کہ نگران وزیراعظم کے لیے وزیراعظم سے ملاقات ابھی تک نہ ہوپائی، کیا کوئی ڈیڈلاک ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ کسی قسم کا کوئی ڈیڈلاک نہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا مزید کہنا تھا کہ ’آج اسمبلی تحلیل ہوجائے گی، تین دن کا وقت ہے اس دوران نگران وزیراعظم کے لیے مشاورت کریں گے۔‘
ایک سوال کے جواب میں راجہ ریاض کا کہنا تھا کہ کوشش کریں گے کہ وزیراعظم اور میں کسی ایک نام پر متفق ہوں، پوری کوشش ہوگی وزیراعظم کے ساتھ نگران کا نام فائنل کرلیں۔
قومی اسمبلی کی تحلیل آج
پاکستان کی قومی اسمبلی آج اپنی مدت مکمل ہونے سے تین دن قبل تحلیل کر دی جائے گی جبکہ نگراں وزیراعظم کے تقرر کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ملاقات بھی شیڈول ہے جس میں مختلف ناموں پر غور کیا جائے گا۔
ملکی تاریخ کی پندرھویں قومی اسمبلی کی مدت 12 اور 13 اگست کی رات بارہ بجے کو مکمل ہو گی تاہم نئے انتخابات 60 کے بجائے 90 دن میں کرانے کے لیے اسمبلی کو مدمت مکمل ہونے سےتین دن پہلے تحلیل کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کے آئین کے مطابق اگر قومی اسمبلی اپنی مدت مکمل کرکے تحلیل ہوتی ہے تو انتخابات دو ماہ کے اندر کرانا لازمی ہیں جبکہ اسمبلی اپنی مدت سے پہلے تحلیل کر دی جائے تو انتخابات کے لیے تین ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔
موجودہ قومی اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست 2018 کو حلف اٹھایا تھا جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ 2018 سے 2022 تک قائدِ ایوان عمران خان اور قائد حزب اختلاف رہے تاہم اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انھیں اس عہدے الگ کر دیا گیا اور شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔
تحریک انصاف کے استعفوں کے باعث پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجا ریاض نئے قائد حزب اختلاف بنے۔
قومی اسمبلی کے آج کے الوداعی اجلاس کے بعد ارکان کا اجتماعی گروپ فوٹو ہو گا۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ 1999 تک ملک میں قومی اسمبلی کبھی بھی اپنی مدّت مکمل نہیں کر سکی تھی۔
کبھی مارشل لاء اور کبھی 58 ٹو بی کے اختیار کے ذریعے صدر نے اسمبلی کو توڑ دیا۔ 2002 سے 2018 تک تین قومی اسمبلیوں نے اپنی مدت مکمل کی تاہم اس دوران وزرائے اعظم تبدیل ہوتے رہے۔
موجودہ قومی اسمبلی اگرچہ اپنی مدت مکمل کرسکتی ہے لیکن حکمراں اتحاد نے ایک نئی روایات ڈالتے ہوئے انتخابات کے لیے زیادہ وقت حاصل کرنے کے لیے اسے قبل از وقت تحلیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ ہی آئینی تقاضے کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجا ریاض کے درمیان ملاقات بھی طے ہے جس میں نگراں وزیراعظم کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا جائے گا اور اتفاق رائے کی صورت میں نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کر دیا جائے گا۔
نئے وزیراعظم کی حلف برداری تک شہباز شریف وزیراعظم کی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔ آئین کے مطابق اگر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہیں ہوتا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا جہاں حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی ہو گی۔
کمیٹی بھی اگر کسی نام پر متفق نہیں ہوتی تو وہ دو یا تین نام الیکشن کمیشن کو بھجوا دے گی جو ان ناموںمیں سے کسی ایک کو وزیراعظم مقرر کر دے گا۔