بے بس حکمران اور مظلوم عوام(غیر سیاسی باتیں…… اطہر قادرحسن)
ایک چھوٹا سا گھر بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں چل سکتا کجا کہ ایک بڑا ملک جو کہ ایٹمی طاقت کا حامل بھی ہو اسے حالات کے تحت چھوڑ دیا جائے کہ وہ بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح چلتا رہے گاجبکہ دشمنوں میں گھرا ہو اپاکستان ایک دن بھی کسی منصوبے کے بغیر نہیں چل سکتا
کسی ملک کو چلانے کے لئے انتہائی دانش اور حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک چلانے میں ہماری ہر حکمت عملی دانشمندی سے عاری نظر آتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج قوم مہنگائی کا عذاب بھگت رہی ہے اور یہ عذاب ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے بلکہ ہمارا اشرافیہ طبقہ اس میں مزید اضافے کی نوید بھی سنا رہا ہے۔ ایک چھوٹا سا گھر بھی کسی منصوبہ بندی کے بغیر نہیں چل سکتا کجا کہ ایک بڑا ملک جو کہ ایٹمی طاقت کا حامل بھی ہو اسے حالات کے تحت چھوڑ دیا جائے کہ وہ بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کی طرح چلتا رہے گاجبکہ دشمنوں میں گھرا ہو اپاکستان ایک دن بھی کسی منصوبے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ دنیا کی بڑی آبادی والے ملک پاکستان کو چلانے اور اسے زندہ رکھنے کے لئے حقیقتاً معاشی محاذ پر جہاد کی ضرورت ہے جو نہ صرف اسے دشمنوں سے بچائے بلکہ آگے بھی لے جائے۔
بدعنوانی اور کرپشن نے جس طرح پاکستان میں پنجے گاڑھ رکھے ہیں اور جس کا اس کے بڑے بیک زبان ہو کر یہ اعتراف بھی کرتے ہیں کہ ان کے ملک میں کرپشن اور بدعنوانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس ہمہ گیر کرپشن پر ہاتھ ڈالیں تو ملک چلانے والا کوئی باقی نہ رہے۔ پاکستان کا میڈیا اپنے قارئین کو اس کرپشن کے متعلق مسلسل آگاہ کرتا رہتا ہے لیکن اس کرپشن پر ہاتھ ڈالنے کو کوئی تیار نہیں ہے کیونکہ وہ طاقتیں جن کے پاس اختیار ہوتا ہے جنہوں نے اس ناسور کا قلع قمع کرنا ہے اگر وہی طاقتیں اس کرپشن سے مستفید ہوتی ہیں تو پھر اس ناسور کا خاتمہ کیسے ممکن ہو۔ اس وقت حالات یہ بتاتے ہیں کہ ہماری اشرافیہ کی مسلسل غلط اور بدعنوان پالیسیوں نے ملک کو وہاں لا کھڑا کیا ہے جو ہمارے دشمنوں کا مطلوب تھا اور اب ہم نے نہ صرف اس وسیع ترکرپشن کے سامنے علانیہ ہتھیار ڈال دیئے ہیں بلکہ ان طاقتوں کے سامنے بھی سرنڈر
۲
کردیا ہے جو اس وقت پاکستان کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق چلا رہے ہیں یعنی ہم ملک کو عملاً بدعنوانی کے سپرد کر کے محاورتاً نہیں حقیقت میں بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں۔
دگرگوں معاشی حالات جن میں آئے روز شدت آرہی ہے انہی مشکل ترین حالات میں پاکستان میں حکومت کی تبدیلی عمل میں آچکی ہے جناب شہباز شریف سولہ ماہ کی حکومت کے بعد رخصت ہو چکے ہیں اور اپنے پیچھے عوام کے لئے کوئی خوشگوار یادیں چھوڑ کر نہیں گئے کیونکہ ان کے سولہ ماہی اقتدار میں عوام پر زندگی انتہائی تنگ رہی ہے لیکن ان کا یہ کہنا تھا کہ ملک کی معاشی حالت پر انہوں نے سمجھوتہ نہیں کیااور اپنی سیاست کو ریاست پر قربان کر دیا ہے۔ اگر الیکشن ہو گئے تو اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ جناب شہباز شریف کی ریاست بچانے کی حکمت عملی کہاں تک کامیاب رہی اور اس حکمت عملی سے ان کی سیاست بچ گئی ہے یا وہ مہنگائی کے سمندر میں بہہ گئے ہیں سردست تو یوں لگتا ہے کہ الیکشن کا معاملہ ”ہنوز دلی دور است“والا ہے۔ نگران حکومت کے وزیر اعظم جناب انوار الحق کاکڑ نے یوم آزادی کے روز حلف اٹھا لیا ہے اور پاکستان کی کمان سنبھال لی ہے۔ سنا ہے کہ وہ بڑے کھلے ڈلے شخص ہیں اور بلا کم وکاست اپنی بات کہہ دیتے ہیں پاکستان کے عوام کی نظریں ان پر مرکوز ہیں کہ وہ اپنی آئینی مدت جو کہ دواؤ پیچ کے بعد نوے روزمقررہو چکی ہے اس مقررہ آئینی مدت میں وہ اپنی پٹاری سے عوام کے لئے کیا برآمد کرتے ہیں۔ مشہور محاورہ ہے کہ امید پر دنیا قائم ہے اور پاکستانی عوام بھی امید وبیہم کا شکار ہیں یہ وہ معصوم عوام ہیں جو ہر حکمران چاہے وہ پنج سالہ ہو یا کم مدت والا اس سے اپنی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ آج تک کوئی بھی حکمران عوام کی توقعات پر پورا اترنے نے قاصر رہا ہے عوام کی توقعات تو صرف اتنی ہوتی ہیں ان کی روز مرہ کی زندگی گزارنے کے اسباب کی قیمتوں میں استحکام رہے اور وہ اپنی آمدن کے مطابق زندگی گزار سکیں۔لیکن ہوتا یوں ہے کہ حکومت اپنی کمائی کا سب سے آسان
۳
ذریعہ انہی عوام کو بنا لیتی ہے اور اور ان کی روز مرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکسوں کی اس قدر بھر مار کر دجاتی ہے جس سے حکومت کا خزانہ تو بھر جاتا ہے لیکن عوام کی جیب خالی ہو جاتی ہے اور وہ حکومت کو کوسنے لگ جاتے ہیں۔
گزشتہ پانچ برس میں ہم نے دوحکومتوں کو بھگتا لیا ہے اور یہ دونوں حکومتیں ملک کی معاشی بدانتظامی کا بوجھ ایک دوسرے پر ڈالتی رہیں ہیں جناب عمران خان کی حکومت کا یہ دعویٰ تھا کہ ان کے دور میں معاشی ترقی کی رفتار تیز تر تھی جبکہ جناب شہباز شریف اس دعویٰ کے برعکس بات کرتے رہے ہیں لیکن کسی بھی حکمران کے دعوؤں کے برعکس اس وقت پاکستان سے بدعنوانی اور کرپشن کو ختم کرنے کے لئے بڑے فیصلوں کی ضرورت ہے اور یہ بڑے فیصلے نام نہاد بڑے لوگوں کے خلاف ہونے چاہئیں لیکن یہ فیصلے کون کرے گا کیونکہ اس میں تما م شرفاء کے نام آتے ہیں اور یہ سب آپس میں اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ان کو الگ کرنا ناممکن ہے اور جب بھی ان کے مفاد پر زد پڑتی ہے تو یہ یک زبان بلکہ یک جان ہو کر اس کے مقابلے پر اتر آتے ہیں اور جن کواس بدعنوانی کو روکنا ہوتا ہے وہی اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتے ہیں اوراگر کوئی نیک نیت حکمران اس ضمن میں کوئی فیصلہ کرنا بھی چاہے تو وہ بے بس ہو جاتا ہے اور جب ایک حکمران کسی معاملے میں بے بس ہو جائے وہ قوم کے لئے نہایت مایوسی کا لمحہ ہوتا ہے اور اس طرح قومیں بکھر کر گروہوں میں بٹ جاتی ہیں۔قوم کو مایوسی میں دھکیلنے کی بجائے اس وقت ضرورت ہے کہ قوم کی ہمت بڑھائی جائے تا کہ وہ یکجا ہو کر اس کھلی کرپشن کا احتساب کر سکے اور کسی حکمران کو بدعنوانی اور کرپشن کے خاتمے کے لئے بے بس نہ ہونا پڑے۔