
چترال بونی سڑک کے ناقص کام پر سی ڈی ایم کے اراکین کی برہمی
۔ ٹھیکدار پورے پہاڑ کو گراکر دریا میں ڈالتا ہے۔ سیمنٹ کے کام پر کوئی تھرائی یعنی پانی نہیں ڈالا جاتا۔سڑک کے کنارے دریا کی جانب جو حفاظتی دیواریں تعمیر ہورہی ہیں وہ نہایت ناقص ہیں. عام مزدوروں کو محتلف کاموں کا ٹھیکہ دیا گیا ہے جن کا تعمیراتی کام میں کوئی تجربہ ہی نہیں ہے
چترال پاکستان (گل حماد فاروقی):چترال سے بونی، شندور کی سڑک کی تعمیر کے کام پر چترال میں رضاکار تنظیم سی ڈی ایم (چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ) کے صدر اور اراکین نے غیر معیاری میٹریل استعمال پر نہایت برہمی کا اظہار کیا۔ گزشتہ روز سی ڈی ایم کے صدر اور اراکین نے اس سڑک کا معائنہ کیا۔ سڑک کے کنارے دریا کی جانب جو حفاظتی دیواریں تعمیر ہورہی ہیں وہ نہایت ناقص ہیں۔ ان دیواروں میں چھوٹے بڑے پتھر رکھ کر اس کے درمیان میں کچرا ڈالا جاتا ہے اور ان کو سیمنٹ کے مسالہ سے چھپاتے ہیں مگر اس میں جو ریت استعمال ہوتی ہے وہ نہایت ناقص اور سارا مٹی ملا ہوا ہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ یہ دیکھنے کو ملا کہ جو حفاظتی دیوار تعمیر کیا گیا ہے اس پر اصولاً سات دنوں تک دو مرتبہ روزانہ پانی ڈالاجاتا ہے مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے چونکہ پانی ڈالنے کا پیمائش کے دوران کوئی ناپ تول نہیں ہوتا تو ٹھیکدار ان دیواروں کو بنا کر اسے ویسے چھوڑدیتے ہیں۔ اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ کاغذات میں اس سڑک کی تعمیر کا ٹھیکہ عمر جان اینڈ کمپنی کو دیا گیا ہے مگر کام کے دوران دیکھا گیا کہ عشریت سے لیکر ارندو تک عام مزدوروں کو محتلف کاموں کا ٹھیکہ دیا گیا ہے جن کا تعمیراتی کام میں کوئی تجربہ ہی نہیں ہے۔
سی ڈی ایم کے ٹیم نے اس بات پر بھی نہایت برہمی کا اظہار کیا کہ اس تعمیراتی کام کی معیار اور مقدار کو جانچنے کا ذمہ NESPAK کے ریذیڈنٹ انجنیر کا ہے مگر بدقسمتی سے عرفان نامی کنسلٹنٹ ایک مرتبہ بھی اس سڑک پر ہونے والے کام کے معائنہ کیلئے کسی نے بھی نہیں دیکھا اور نہ اس کا کبھی معائنہ کیا اب معلوم ہوا ہے کہ وہ ملازمت سے سبکدوش ہوا ہے مگر اس کی جگہہ کوئی دوسرا کنسلٹنٹ ابھی تک نہیں آیا۔ اس سڑک کے معائنہ کے دوران ایک عجیب بات دیکھنے کو ملی کہ ٹھیکدار نے بعض جگہوں میں غیر ضروری طور پر دس میٹر کے فاصلے میں بھی پائپ سڑک میں ڈال کر کلورٹ بنارہے ہیں مگر ان پائپوں کو جب غور سے دیکھا گیا اس میں ایک حامی نظر آئی۔ جہاں سے پانی آتی ہے وہ سرا نیچے ہے اور جہاں سے پانی نکلتی ہے وہ اوپر ہے جب اس میں پانی بھر جائے گا تو وہ لیک ہوکر سڑک پر بہنے لگے گا جس سے تارکولی سڑک تباہ ہوسکتا ہے۔ان پائپوں پر جو سیمنٹ ڈالتا ہے اس میں کوئی سریا یعنی لوہے کی سلاحوں کا استعمال ہی نہیں ہوتا۔ اور جہاں بڑے بڑے کلورٹ کی جگہہ پر پل بناتے ہیں وہاں نہایت چھوٹے سائز کا سریا استعمال ہوا ہے حالانکہ اس میں ڈیڑھ سے ایک انچ تک سریا استعمال ہونا چاہئے تھا تاکہ مال بردار ٹرکوں کی وزن کی وجہ سے یہ پل ٹوٹ نہ جائے۔
ہمارے نمائندے نے ایک نہایت سینیر انجنیر سے جب ان کی رائے جانی تو انہوں نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اس کام میں کافی سارے غلطیاں ہیں۔ ایک تو بڑی غلطی یہ ہے کہ لنٹر ڈالنے سے پہلے سریا کے نیچے ڈیڑھ سے دو انچ تک چھوٹے پتھر رکھنا پڑتا ہے تاکہ جب اس میں مسالہ ڈالا جائے تو وہ کنکریٹ ان سریا کے نیچے بھی جائے دوسرا اس میں بہت سارا فاصلہ چھوڑا گیا ہے اصولی طو رپر ایسے لانٹر میں چھ چھ انچ کے فاصلے پر سریا ڈالا جاتا ہے اور اسے دس دن تک پانی دیا جاتا ہے مگر ٹھیکدار نے لنٹر ڈال کر اسے لاوارث چھوڑا ہے جو پانی نہ ہونے کی وجہ سے یہ لانٹر ابھی سے ٹوٹنا شروع ہوا ہے۔
سی ڈی ایم ٹیم کے سڑک کے دورے کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ بعض جگہوں پر حفاظتی دیواریں ابھی سے خود بخود ٹوٹنا شروع ہوئے ہیں کیونکہ ٹھیکدار نے اس پر پانی نہیں ڈالا تھا اور وہ سیمنٹ پانی نہ ہونے کی وجہ س خراب ہوکر مٹی بن گیا ہے۔
اس راستے میں ایک جگہہ پہاڑ سے قدرتی چشمہ نکلتا ہے جہاں ااس علاقے کے لوگوں نے پندرہ بیس کیبین لگائے تھے اور اپنے اہل حانہ کیلئے روزی روٹی کما رہے تھے۔ ٹھیکدار اسی جگہہ آٹھ فٹ اونچا حفاظتی دیوار بناکر اس قدرتی چشمے کی پانی کو بھی ضائع کررہا ہے۔ کوغذی سے تعلق رکھنے والے چئیرمین شریف حسین کا کہنا ہے کہ ہم نے بارہا این ایچ اے حکام اور ٹھیکدار سے درخواست کی کہ اس جگہہ صرف دو ڈھائی فٹ اونچا دیوار بناکر اس چشمے کو ضائع ہونے سے بچایا جائے جہاں مقامی لوگ کیبین لگا کر اپنے لئے رزق حلال کمائیں گے اور سیاح اور راہ گیر بھی اس قدرتی چشمے سے ٹھنڈا پانی پی کر مستفید ہوں گے مگر انہوں نے ہماری ایک بھی نہیں سنی۔
اس سڑک پر سی ڈی ایم کے اراکین کے دورے کے دوران ایک بات کا انکشاف ہوا کہ ٹھیکدار سڑک کو کشادہ کرنے کیلئے پہاڑ میں دس سے بیس فٹ لمبا چھوٹا سرنگ بناتا ہے جس میں بارود اور یوریا ڈال کر اس میں بلاسٹنگ کرکے اسے دھماکے سے اڑاتا ہے جس کی وجہ سے پورا پہاڑنیچے گرتا ہے اور جو باقی بچتا ہے اس میں بھی کریک یعنی دھراڑیں پڑنے سے نہایت حطرناک بنتا ہے۔ چونکہ چترال ریڈ زون میں شامل ہے اور کسی بھی وقت اونچے درجے کا زلزلہ آسکتا ہے یا بارش اور برف باری کی وجہ سے بھی یہی زحمی یعنی کریک والے پہاڑ نیچے گر کر بڑے پیمانے پر جانی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اس معائنے کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ ٹھیکدار غیر قانونی طور پر پہاڑ کو گرانے کے بعد لاکھوں ٹن ملبہ اور بڑے بڑے پتھر دریائے چترال میں گراتا ہے جس کی وجہ سے دریا کا سطح بلند ہوکر تباہی کا باعث بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ دریا کا پانی اتنے اونچے سطح پر بہنے لگا کہ اس کے کنارے گھروں اور ہوٹلوں کے کمروں میں بھی پانچ فٹ تک اونچا پانے بہہ کر تباہی کا باعث بنا۔اس دریا میں ملبہ ڈالنے سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ دریائے مستوج میں ڈالے گئے یہ بڑے بڑے پتھر آکر سینگور میں رک گئے جہاں دریائے مستوج اور دریائے لٹکوہ ایک سنگم پر ملتے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے یہ بڑے بڑے پتھر آکر دریائے لٹکوہ کے دہانے پر رک گئے اور اس کی وجہ سے پانی کا بہاو بند ہوا۔ یہ پانی جمع ہوتے ہوئے سینگور میں واپڈا کے ایک میگا واٹ بجلی گھر کے اندر داحل ہوا اور پورا بجلی گھر پانی کے اندر ڈوبنے سے تباہ ہوا اس کے علاوہ پانی کا سطح اتنا بلند تھا کہ بجلی گھر سے باہر کے علاقے تک پانی پہنچ کر قریبی مکانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنا۔ 22 جولائی سے لیکر آج تک یہ بجلی گھر بند ہے اور یہاں کے لوگ اس کی بجلی سے بھی محروم ہیں۔
اس سلسلے میں سی ڈی ایم کے اراکین نے ضلع اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر محمد خالد زمان سے بھی ان کے دفتر میں ملاقات کرکے اپنا دکھڑا سنایا۔ جس پر ڈپٹی کمشنر نے بھی نہایت برہمی کا اظہار کیا اور یقین دہانی کرائی کہ وہ ان کی فریاد کو صوبائی حکومت کے ذریعے این ایچ اے حکام تک پہنچائے گا۔ سی ڈی ایم کے اراکین کا اس سڑک کے معائنہ کے دوران اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ عمر جان اینڈ کمپنی نے یہ کام ایک ٹھیکدار کو دیا ہے جس نے اپنا کمیشن لیکر کسی اور ٹھیکدار کو دیا او ر اس نے اسی طرح تیسرے اور چھوتے ٹھیکدار کو دیا جس سے کام کا معیار نہایت ناقص ہوا اور جو کام ایک کروڑ میں ہونا تھا وہ اب پچیس ہزار میں ہوگا اور باقی پیسے ٹھیکداروں کی کمیشن کے نذر ہوگئے۔
سی ڈی ایم کے اراکین نے تجویز پیش کی کہ نیردیت گول کے قریب جہاں پہاڑ اتنائی حطرناک ہوچکا ہے وہاں اگر سرنگ بنایا جائے تو اس سڑک میں گزرنے والا پانی کا پائپ لاین بھی محفوظ ہوگا اور بونی شندور جانے والے مسافر بھی پہاڑسے گرنے والے تودوں کی ضد سے بچ جائیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے جب خیبر پحتون خواہ کا چیف سیکرٹری ندیم اسلم چوہدری چترال کے دورے پر آئے تھے تو لوگوں نے شکایت کی تھی کہ بونی سڑک کی کشادگی کرتے وقت ٹھیکدار یہ سارا ملبہ غیر قانونی طو رپر دریا میں ڈالتا ہے جس سے پانی کاسطح بلند ہوکر نقصان کا باعث بنا جس پر چیف سیکرٹری مقامی انتظامیہ کو ہدایت کی تھی اس سلسلے میں انکوائری کی جائے اور انہوں نے یقین دہائی کرائی تھی کہ چونکہ ٹھیکدار کو اس ملبے کو محفوظ جگہہ ڈالنے کیلئے اس کی ادایگی ہوتی ہے اگر وہ اسے دریا میں پھینکتا ہے تو اس کے خلاف سخت سے سخت قدم اٹھایا جائے گا۔ مگر اگلے روز ٹھیکدار نے اینٹ کا جواب پتھر دینے سے کے مصداق پر راغ میں پورا پہاڑ نیچے دھماکے سے گرایا اور لاکھوں ٹن ملبہ اور پتھر دریا میں گرائے جس کی وجہ سے 7 گھنٹے بونی کا راسبہ بھی بند رہا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں اتنے بڑے پتھر گرے تھے جنہیں بلڈوزر ہلا بھی نہیں سکتا اور ان پتھروں کو توڑنے کیلئے اس کے اندر دو مرتبہ پھر سے بلاسٹنگ کی گئی۔
سی ڈی ایم کے اراکین اور چترال کے سیاسی اور سماجی طبقہ فکر وفاقی حکومت کے اعلے ٰ حکام کے ساتھ ساتھ اعلےٰ عدلیہ سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ بونی شندور سڑک کیلئے جو 21 ارب روپے کا فنڈ منظور ہوا ہے یہ 75 سالوں میں پہلی بار اتنا بڑا منصوبہ چترال میں شروع ہوا ہے اس فنڈ کو چند بد عنوان اہلکاروں اور ٹھیکدار کے ہاتھوں خرد برد سے بچایا جائے اور اس سڑک پر کام کی معیار کو چیک کرنے کیلئے کسی ایماندار انجنیر کو تعینات کیا جائے تاکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کا م کا معائنہ کرے اور غیر معیاری اور ناقص کام کو روک کر ٹھیکدار کو پابند کرے کہ وہ معیاری کام کرے تاکہ یہ سڑک بار بار تباہ ہونے اور حراب ہونے سے بچ جائے۔ نیز اس سڑک پر روزانہ کے بنیاد پر پانی چڑھکایا جائے تاکہ اس پر سفر کرنے ولے اور سڑک کے آس پاس رہنے والے لو گ بھی مٹی اور گرد و غبار کی وجہ سے محتلف بیماریوں میں مبتلا ہونے سے بچ جائے۔ عوام نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اگر ہوسکے تو اس کام کا ٹھیکہ کسی اور ایماندار ٹھیکہ دار یا اچھی شہرت کے حامل تعمیراتی کمپنی کو دیجائے تاکہ وہ اس سڑ ک کی تعمیر میں غیر معیاری اور ناقص کام کو روک کر اسے معیاری بنادے اور عوام کو سہولت پہنچ سکے۔