علی احمد ڈھلوںکالمز

آرمی ایکٹ بل: صدر سپریم کمانڈر، جھوٹا کیسے؟(تلخیاں….. علی احمد ڈھلوں )

مگر سوال یہ ہے کہ اگر انہوںنے ایسا نہیں کیا، تو پھر کیا صدارتی عملہ پورے ملک کو چلا رہا ہے؟ نہیں ناں! تو پھر ایسے میں اتنی سرعت اور اتنی دلچسپی سے سیاسی معاملات کون دیکھ رہا ہے؟ اور پھر کیا یہ ”بنانا ریپبلک “ ہے جہاں صدر کہہ رہا ہے کہ بھئی میں نے دستخط نہیں کیے! جب کہ اُس کے ”ماتحت“ عملہ کہہ رہا ہے کہ نہیں صدر صاحب آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔

19اگست بروز ہفتہ کی صبح یہ خبر آئی کہ صدر کے دستخط کے بعد آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل قانون بن گیاہے، پھر اُسی تاریخ کو شام میں خبر آئی کے سائفر معاملے پر تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کو گرفتار کر لیا گیا ہے، اگلے دن یعنی اتوار 20اگست کو خبر آئی کہ اسد عمر کو بھی سائفر معاملے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ پھر اُس کے بعد ہمارے صدر محترم کو ہوش آیا اور اُنہوں نے سوچا کہ صاحب! بڑی غلطی ہوگئی ہے!جس کے ازالے کے لیے اتوار ہی کے روز ایک ٹویٹ کیا کہ ”میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے۔ میں نے ان سے کئی بار تصدیق کی کہ آیا وہ واپس جا چکے ہیں اور مجھے یقین دلایا گیا کہ وہ جا چکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرا عملہ میری مرضی اور حکم کے خلاف گیا۔اللہ سب جانتا ہے، وہ انشاءاللہ معاف کر دے گا۔ لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس سے متاثر ہوں گے۔“
مطلب !صدر صاحب نے پہلے 30گھنٹے انتظار کیا، اُس کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ اس بل کے سائیڈ ایفیکٹس کیا ہو سکتے ہیں اور کیا ہو رہے ہیں تو پھر انہوں نے تردید کردی۔ چلیں دیر آئید درست آئید کے مصداق،،، انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز بیان کر دی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر انہوںنے ایسا نہیں کیا، تو پھر کیا صدارتی عملہ پورے ملک کو چلا رہا ہے؟ نہیں ناں! تو پھر ایسے میں اتنی سرعت اور اتنی دلچسپی سے سیاسی معاملات کون دیکھ رہا ہے؟ اور پھر کیا یہ ”بنانا ریپبلک “ ہے جہاں صدر کہہ رہا ہے کہ بھئی میں نے دستخط نہیں کیے! جب کہ اُس کے ”ماتحت“ عملہ کہہ رہا ہے کہ نہیں صدر صاحب آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ مطلب! ملک کی سب سے بڑی آئینی پوسٹ کے ڈیکورم کا ہی خیال نہیں رکھا جا رہا تو عام آدمی اس پر کیا کر سکتا ہے؟الغرض سمجھ سے باہر ہے کہ کیا سپریم کمانڈر جھوٹے ہیں، اور ان کے ماتحت سارا عملہ سچا ہے۔ اگر ملک کے صدر پر اعتبار نہیں رہا تو پیچھے کون رہ گیا ہے؟ اور پھر مذکورہ قوانین جو منظور ہوئے ہیں، وہ سزائیں تو پہلے سے ہی موجود ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے، کہ یہ صحافیوں کو ڈرانے کا بھی ایک نیا طریقہ ہے، اُن کے قلم کو دبانے کا ایک نیا طریقہ ہے۔
خیر ہمیں کیا؟ ہمیں صرف آٹے گھی کے بھاﺅ معلوم ہونے چاہیے، ہمیں صرف بجلی کے اضافی بلوں اور پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی فکر ہونی چاہیے، ہمیں صرف اپنی جان بچانے کی فکر ہونی چاہیے، ہمیں صرف اتنا علم ہونا چاہیے کہ بس اس ملک میں رہنا ہے اور گزارہ کرنا ہے۔ باقی سب کچھ ”صاحب“ سنبھال لیں گے۔ لیکن اپنا فرض نبھانے کی بھی ایک عادت سی پڑگئی ہے کہ بقول شاعر
قربت بھی نہیں دل سے اُتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا
البتہ اگر ہم آرمی ترمیمی بل اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی بات کریں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک یا جدید آلات کے ساتھ یا ان کے بغیر ملک کے اندر یا باہر سے دستاویزات یا معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کرنے والا مجرم تصور ہوگا، پاکستان کے اندر یا باہر ریاستی سکیورٹی یا مفادات کے خلاف کام کرنے والے کے خلاف بھی کارروائی ہوگی، ان جرائم پر 3 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملزم کا ٹرائل خصوصی عدالت میں ہو گا اور خصوصی عدالت 30 دن کے اندر سماعت مکمل کرکے فیصلہ کرے گی۔
جبکہ اگر آرمی ایکٹ کی بات کریں تو آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔آرمی ترمیمی ایکٹ کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے اہلکار کو دو سال تک قید با مشقت کی سزا ہو گی جبکہ حاضر سروس یا ریٹارڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر کوئی ایسی بات نہیں کرنے گا جس کا مقصد فوج کو اسکینڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا ہو، جرم کرنے والے کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت ہو گی، سزا الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت ہو گی۔آرمی ایکٹ کے تحت کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ اہلکار اگر فوج کو بدنام کرے یا اس کےخلاف نفرت انگیزی پھیلائے گا اسے آرمی ایکٹ کے تحت دو سال تک قید اور جرمانہ ہو گا۔آرمی ایکٹ سیکشن 26 اے میں ایک نئے سیکشن کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات جو پاکستان اور افواج کی سکیورٹی اور مفاد سے متعلق ہو افشا کرے گا اسے پانچ سال قید بامشقت تک کی سزا ہو سکے گی، البتہ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی جانب سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات دینے پر سزا نہیں ہو گی، راز افشا کرنے والے شخص کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
اب میں قارئین کو ان بلز کے حوالے سے یاد دلاتا جاﺅں کہ سابقہ اسمبلی یعنی شہباز شریف اسمبلی میں کچھ لوگ غیرت مند بھی تھے، جنہوں نے ان بلز کے اوپر خاصی برہمی کا اظہار بھی کیا تھا، یعنی جب سینیٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا گیا تو اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اتحادی بھی برہم ہوگئے تھے اور پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے کئی بلوں کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔پی ٹی آئی ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم پاکستان، نیشنل پارٹی اور پی کے میپ بشمول کے علاوہ مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر افنان اللہ سمیت کئی سینیٹرز نے بل کے خلاف احتجاج کیا تھا جس پر چیئرمین سینیٹ نے ارکان کے احتجاج پر بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا تھا۔بعد ازاں سینیٹ میں آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ سے کچھ متنازع شقیں نکال کر دوبارہ پیش کیا گیا جسے سینیٹ نے منظور کیا پھر قومی اسمبلی نے بھی ترمیم شدہ بل کی منظوری دیکر اسے قانون بنانے کے لیے سمری صدر پاکستان کو ارسال کر دی تھی۔
یعنی ایک ایسا بل جو خاصا متنازعہ ہے، جس پر تمام سیاسی رہنما شکنجے میں آسکتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اپنے بنائے ہوئے قانون کی لپیٹ میں آسکتے ہیں، اُسے ناصرف منظور کیا گیا ہے، بلکہ اُس پر چند لمحوں بعد ہی عمل درآمد کرکے سیاسی رہنماﺅں کو اُٹھایا جا رہا ہے؟ حالانکہ قانون کے مطابق اب اس ایکٹ کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ آئین کیا کہتا ہے۔ آئین کی رو سے قومی اسمبلی یا سینیٹ سے پارلیمانی امور کا ذیلی محکمہ متعلقہ بل کو پہلے پرائم منسٹر ہاو¿س بھیجتا ہے جہاں سے یہ بل صدر کو بھیجا جاتا ہے۔آئین کے آرٹیکل 75 میں کسی بھی بل پر صدر کے دستخط ہونے اور نہ ہونے کی صورت میں لائحہ عمل درج ہے۔ آئین کے اس آرٹیکل کے مطابق صدر کے پاس جب بھی کوئی بل جاتا ہے تو ان کے پاس دو راستے ہیں، ایک تو یہ کہ وہ اس بل کو منظور کرتے ہوئے اس پر دستخط کر دیں اور یوں یہ ایکٹ ایک قانون بن جاتا ہے۔دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ اس پر دستخط نہ کریں اور اسے ترامیم کی درخواست کے ساتھ واپس پارلیمان بھیج دیں۔خیال رہے کہ یہ سب کرنے کے لیے صدر کے پاس 10 دن کا وقت ہوتا ہے۔ اور مَنی بل کے علاوہ کوئی بھی بل واپس بھجوایا جا سکتا ہے۔اسی شق میں آگے چل کر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب صدر یہ بل دستخط کے بغیر واپس بھیج دیں تو یہ بل اب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا جہاں اس پر مزید بحث ہوگی۔اکثریتی ووٹ سے منظور ہونے کے بعد اب یہ بل ایک بار پھر وزیراعظم ہاو¿س سے ہوتا ہوا ایوان صدر پہنچے گا۔ مشترکہ اجلاس سے آنے والے اس بل پر صدر کو دس دن کے اندر دستخط کرنا ہوتے ہیں اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں 10 دن کے بعد یہ بل خودبخود ہی قانون میں تبدیل ہوجاتا ہے اور صدر کے دستخط کی ضرورت نہیں رہتی۔
لہٰذااس وقت یہی وہ اہم نقطہ ہے جس پر بحث کی جارہی ہے۔یعنی اب اگلی اسمبلی آنے تک انتظار کیا جائے تاکہ اس بل پر بحث ہو، اُس کے بعد یہ بل صدر کے پاس آئے، اور اگر صدر پھر بھی منظوری نہیں دیتا تو یہ قانون بن جائے گا ، مگر فی الوقت یہ قانون نہیں بن سکا۔ اس لیے میرے خیال میں اداروں کو عجلت سے کام لینے کے بجائے دانشمندی اور ہوشمندی سے کام لینا چاہیے، اور ملک کو ذاتی پسند نا پسند کے چکر میں نہیں چلانا چاہیے۔ اور پھر بادی النظر میں اگر سیاستدان کسی کو اتنے ہی برے لگتے ہیں تو انہیں عبرت کا نشان بنانے کے بجائے سیدھا سیدھا سب کو گھر بھیج دیں اور حکومت کر لیں، کیوں کہ قوم نے بھی ذہن بنا لیا ہوا ہے، سیاستدانوں نے بھی اور ہم صحافی تو پہلے ہی ہر آنے والے حالات کے لیے تیار رہتے ہیں،،، بس آپ بسم اللہ کریں!

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button