"سیاہ باب” سے ابھرے”سنہری حروف”۔۔۔۔۔۔۔۔!!!امجد عثمانی
"ہجوم" مشرق سے اٹھے یا مغرب میں بپھرے،اندھا ،بہرہ اور سنگدل ہی پکارا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانحہ جڑانوالہ پر خون روتی چشم فلک نے اس قہر آلود روز کئی رحم بھرے رقت آمیز مناظر بھی دیکھے۔۔
الم ناک سانحہ جڑانوالہ جہاں تاریخ کا "سیاہ باب”ٹھہرے گا وہاں اس کے سوختہ تن بدن سے ابھرے کچھ روشن پہلو "سنہری حروف” میں لکھے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہالت کی "اندھیر نگری” میں جگنوئوں کی طرح دمکتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔ مکرر عرض ہے کہ "ہجوم”کسی مذہب کا "نمائندہ” ہوتا ہے نہ کسی ملک کا "چہرہ”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی "شتر بے مہار” گروہ کا دنیا کے دوسرے مذاہب اور ممالک کی طرح اسلام اور پاکستان پر بھی اطلاق "خبث باطن”کے سوا کچھ نہیں کہلائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”ہجوم” مشرق سے اٹھے یا مغرب میں بپھرے،اندھا ،بہرہ اور سنگدل ہی پکارا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانحہ جڑانوالہ پر خون روتی چشم فلک نے اس قہر آلود روز کئی رحم بھرے رقت آمیز مناظر بھی دیکھے۔۔۔۔۔اس دن عام مسلمان تو مسیحی برادری کے لیے "ڈھال” بنے ہی بنے،وطن عزیز کے علمائے کرام نے بھی پہلی بار ایک اقلیت کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کر دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وقوعہ کے روز ہی ایک عالم دین پہلی بار مشتعل ہجوم کے ساتھ ملکر نفرت کی” آگ "بھڑکانے کے بجائے پولیس کے ساتھ کھڑے ہو کر انتقام کے "فلک بوس انگارے” بجھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سانحہ جڑانوالہ کے منظرنامے پر پاکستان کی تاریخ کا ایک اور انوکھا واقعہ رونما ہوا اور ایک مکتب فکر نے مسیحی برادری کے لیے مساجد کے دروازے کھول کر دنیا کے دل جیت لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔متحدہ جمعیت اہلحدیث فیصل آباد ڈویژن کے ناظم اعلیٰ جناب سکندر حیات ذکی نے جڑانوالہ کے مسیحی افراد کو مساجد میں عبادات کرنےکی دعوت دیتے ہوئےکہا ہےکہ شہر کی تمام مساجد آپ کے پیش خدمت ہیں۔۔۔۔۔۔۔سکندر حیات ذکی صاحب نے کہا کہ جس طرح مسجد اور قران پاک کی توہین جرم ہے، اسی طرح چرچ ، تورات اور زبور کی توہین بھی جرم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آرمی سالویشن چرچ جڑانوالہ کے انچارج میجر معشوق مسیح نے سکندر حیات ذکی کی دعوت کو سراہتے ہوئے تصدیق کی کہ ہمارے پاس مسجد سے دو بار وفد آیا اور ہمیں دعوت دی کہ وہ اس حالت میں چرچ میں عبادت نہ کریں بلکہ مسجد میں آئیں۔۔۔صبح نو بجے آپ کے لیے مسجد کھول دی جائےگی۔۔۔۔۔یہ بات بتاتے ہوئے فرط جذبات میں میجر معشوق کی آنکھیں چھلک پڑیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بروقت اچھا "پیش لفظ” کہا۔۔۔۔متحدہ علماء بورڈ پنجاب کے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی نے "محتاط”لب کشائی کی۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور کی بادشاہی مسجد کے خطیب اور چیئرمین رویت ہلال کمیٹی سید عبدالخبیر آزاد بین المذاہب وفد کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور مسیحی برداری کی عبادت گاہوں اور گھروں کے جلانے کو غیرشرعی عمل قرار دیا۔۔۔۔مذکورہ تینوں علمائے کرام "سرکاری عہدیدار”بھی ہیں تو ان کے موقف کو "ریاستی بیانیہ” بھی کہا جا سکتا ہے۔۔۔۔اس موضوع پر سب سے توانا آواز پاکستان علماء کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی نے اٹھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے سب سے پہلے سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عیسائیوں کے ساتھ تاریخ ساز معاہدے کا حوالہ دیا جو بعد میں "قومی بیانیہ” بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نیوز کانفرنس کے نام سے سجی بھری مجلس میں مسیحی رہنمائوں سے معافی مانگتے آبدیدہ ہوگئے اور ملک و دین کیخلاف” منفی مہم” کا رخ بدل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔شنید ہے کہ ان کے "آنسو” بھی تنقید کے نشتر سہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ وہ کسی نہ کسی "تنازع” میں الجھتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔غیروں کے "دفاع” میں اپنوں سے”داغ داغ” حافظ طاہر اشرفی تو ٹھہرے” غالب مزاج”۔۔۔۔۔۔۔۔خوب "دشنام” سنتے اور "حظ” اٹھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔خوف ہے کہ یار لوگ کہیں ہمیں بھی "لفافہ صحافی”کا طعنہ نہ دے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالاں کہ ان سے "علیک سلیک” ہوئے بھی مدت ہو گئی۔۔۔۔
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
عالمی میڈیا نے بھی پہلی بار پاکستان کے کسی” دل خراش سانحے” پر اپنے مزاج کے برعکس قدرے بہتر رپورٹنگ کرکے حیران کر دیا۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ اسے "کچھ منفی”ملا ہی نہ ہو اور "ہاتھ نہ آئے تھو کڑوا” کے مصداق اسے مثبت رپورٹنگ کرنا پڑی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے گواہی دی کہ جلائو گھیرائو کے دوران مسلمانوں نے مسیحی گھروں کو بچانے کے لیے حتی المقدور مزاحمت کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرمنی کے ڈی ڈبلیو ٹی وی نے سرخی جمائی:مسیحی برادری پر حملے، مددگار بھی مسلمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈوئچے ویلے نے لکھا کہ توہین مذہب کے الزام پر مسلمان بلوائیوں نے کئی مسیحی عمارتوں پر حملے کیے مگر اس دوران کئی مسیحیوں کو پناہ دینے والے بھی مسلمان تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جرمن ٹی وی نے اے ایف پی کے حوالے سے ایک جملہ بھی تراشا۔۔۔۔یہ جملہ عالمی میڈیا کے من پسند مزاج کی عکاسی کرتا ہے کہ اسے کوئی” منفی پہلو "مل جاتا تو وہ کبھی رعایت نہ کرتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرانس کی نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ایک مسیحی خاتون کے حوالے سے لکھا کہ انہوں نے بتایا کہ سانحہ کے روز ہمارے بچے چیخ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔دوڑو دوڑو، مولوی آ رہے ہیں۔۔۔۔۔وہ ہم پر حملہ کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولوی کا طعنہ مغرب سے مرعوب کچھ میڈیا پرسنز اور موٹیویشنل سپیکرز کا ‘محبوب طعنہ” ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فہم سے عاری ان بے چاروں کو "وہم "ہے کہ صرف انگریزی کا نام ہی تعلیم ہے۔۔۔۔یہ ژولیدہ مو اور ژولیدہ فکر "خیال” کرتے ہیں کہ کسی کو مولوی کہنے سے وہ غیر مہذب اور یہ خود تہذیب یافتہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔بہر کیف اے ایف پی کا” یہ جملہ”اپنی موت مرگیا اور انہیں یہ جملہ پھینکنے کے باوجود ماننا پڑا کہ جب کشیدگی اور افراتفری بڑھی تو کئی مسلمان سڑکوں پر نکلے تاکہ اپنے مسیحیوں ہم سایوں کو بچائیں اور انہیں اپنے ہاں پناہ دیں۔۔۔۔۔پادری جاوید بھٹی نے بھی اعتراف کیا کہ مشتعل ہجوم باہر سے آیا مگر مقامی مسلمانوں نے ہماری مدد کی اور ہمیں بچانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید بھٹی کی گلی کے رہائشی طارق رسول نے انکشاف کیا کہ مشتعل ہجوم کو آتا دیکھ کر مقامی مسلمانوں نے فوری طور پر مسیحیوں کے گھروں کے دروازوں پر قرآنی آیات چپکائیں تاکہ تشدد نہ پھیلے۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ دو مسیحی خواتین دوڑ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اپنے گھر کا دورازہ کھولا اور انہیں اندر آنے دیا۔۔۔۔ وہ ڈری ہوئی تھیں۔۔۔۔میں نے انہیں حوصلہ دیا۔۔۔۔..اس قیامت خیز روز بقائے باہمی کی ایک اور بہترین مثال اس وقت سامنے ائی جب مسلمان شہری ملک خلیل عرفان نے اپنی پڑوسن جوزفین اور ان کے بچوں کو بچانے کے لیے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی اور خود اپنے پڑوسیوں کے گھر کے باہر جائے نماز لے کر کھڑے ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔حالات بہتر ہونے پر جوزفین اپنے گھر واپس چلی گئیں۔۔۔۔۔۔۔عالمی میڈیا کی تو یہ عادت ہے کہ وہ "مکھی” کی طرح "زخم” ڈھونڈتا ہے لیکن قومی میڈیا کا حال دیکھیں کہ جب دنیا کو اسلام اور پاکستان کا یہ خوب صورت چہرہ دکھانے کی ضرورت تھی تو وہ بتا رہا تھا کہ جلائو گھیرائو کے دوران پنجروں میں بند پرندے بھی جل گئے۔۔۔۔۔۔چرچ آف پاکستان کے بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل نے خوب کہا کہ مجھے ابھی تک کوئی مسلم سکالر نہیں ملا جو جڑانوالہ کے واقعات کو صحیح سمجھتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔جناب آزاد مارشل نے سچ کہا کہ سانحہ جڑانوالہ پر عام آدمی سے لیکر عالم دین تک ہر پاکستانی کا دل غمزدہ اور آنکھ اشکبار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہی اسلامی منشور ہے اور یہی پاکستان کا دستور ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہی اسلام اور یہی پاکستان کا اصل چہرہ ہے۔۔۔۔۔۔!!!!