اطہر قادرحسنکالمز

اجتماعی توبہ(غیر سیاسی باتیں….. اطہر قادر حسن)

پریشان کن خبریں سن کر طبیعت بھی مکدر ہو جاتی ہے اور بعض خبریں تو ایسی ہوتی ہیں جن کو نہ پڑھنے کو دل کرتا ہے اور نہ سننے اورنہ دیکھنے کو کہ ظلم کے پہاڑٹوٹ رہے ہیں اورجو ظلم کر رہے ہیں

خبریں اتنی زیادہ ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی کہ کس پر تبصرہ کیا جائے اور کس کو چھوڑ دیا جائے۔ لیکن جتنی بھی خبریں ہیں وہ کوئی خوش کن ہر گز نہیں ہیں۔ ہر طرف سے افراتفری کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ کوئی بری خبر سننے کو نہ مل جائے۔ پریشان کن خبریں سن کر طبیعت بھی مکدر ہو جاتی ہے اور بعض خبریں تو ایسی ہوتی ہیں جن کو نہ پڑھنے کو دل کرتا ہے اور نہ سننے اورنہ دیکھنے کو کہ ظلم کے پہاڑٹوٹ رہے ہیں اورجو ظلم کر رہے ہیں ان کے آگے بند باندھنے والا کوئی نہیں ہے ان ظالموں کو بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے اور یہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ ملک بھر میں بچیوں کی عصمت دری کی خبریں دل کو دہلا دیتی ہیں اور سچ پوچھیں تو میں دانستہ نہ ایسی خبریں پڑھتا ہوں اور نہ ہی سننے کی کوشش کرتا ہوں کہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوتا کہ پھول جیسی بچیوں کے ساتھ درندے اس طرح کا ظلم بھی کر سکتے ہیں۔ میرے بس میں اگر ہو اور قانون اجازت دے تو میں ان ظالم درندوں کو بیچ چوراہے لٹکا کر نشان عبرت بنادوں۔میں اس کرب کا اندازہ ہی نہیں کرنا چاہتا کہ جس کرب سے یہ معصوم پھول جیسی بچیوں گزری ہوں گی۔ نہ جانے ہم کس بے رحم اور بے حس معاشرے کا حصہ بن چکے ہیں جہاں انسان حقیقتاً درندوں کا روپ دھار چکے ہیں۔
ابھی کل کی بات ہے کہ جڑانوالہ میں ہمارے مسیحی بھائیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے ان کے گھروں اور عبادت گاہوں کو دن دیہاڑے جلا دیا گیا اور اب ان جلے ہوئے کھنڈرات پر ہمارے ارباب اختیار اظہار افسوس کے لئے پہنچ رہے ہیں۔ غلطی کسی ایک کی تھی لیکن ہم نے ”روائتی بہادری“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی سزا سب کو سنا دی اور چند ہی گھنٹوں میں ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ یہ جاہلیت نہیں
۲
تو اور کیا ہے ہم اپنے مذہب سے کس قدر دور چلے گئے ہیں کہ اس کی اصل روح اور تعلیمات کو پس پشت
ڈال دیا ہے۔ ہمارے مذہب میں تو سب کے ساتھ رواداری کا سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ رب العالمین کا مطلب ہے کہ وہ تما م جہانوں میں بسنے والوں کا رب ہے ان میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے اس میں چرند پرند سب شامل ہیں۔ نبی پاکﷺ نے جنگوں میں بھی غیر مسلموں کو امان دی لیکن ہم اسلام کے نام پر بنائے گئے ملک میں اپنے ہی غیر مسلم شہریوں کو امان دینے کو ہر گز تیار نہیں ہیں۔ میں مسیحوں کو اقلیت نہیں سمجھتا ان کا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے جتنا کسی مسلمان کا ہے کہ وہ بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ملک کی ترقی میں ان کا بھی اہم کردار ہے۔زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ہمارے غیر مسلم شہریوں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ کئی اعلیٰ عہدوں پر ہمارے مسیحی اور ہندو بھائی فائز رہے ہیں جسٹس اے آر کارنیلیئیس اور جسٹس بھگوان داس اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔
راہ چلتی گاڑیوں میں آگ بھڑک رہی ہے اور اس آگ میں جیتے جاگتے ہنستے کھیلتے انسان زندہ جل رہے ہیں۔ یہ ہمارے گناہوں کا عذاب ہے جو ہم پر نازل ہو رہا ہے کیونکہ انسانی زندگی کو ہم نے اس قدر مشکل تر بنا دیا ہے کہ اب عام انسان اس عذاب کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن مجھے وہ وقت زیادہ دور نظر نہیں آرہا جب ہماری اشرافیہ بھی عام انسانوں کے ساتھ شامل ہو جائے گی کیونکہ یہ جو اجتماعی گناہ ہمارے ذمے ڈال دئیے گئے ان میں بڑا حصہ اسی اشرافیہ کا ہے جو خود تو زندگی کی سہولتوں سے فیض یاب ہور ہی ہے لیکن عام آدمی عذاب میں مبتلا ہے۔ بم دھماکوں میں ہمارے سیکورٹی اداروں کے نوجوان شہادت پا رہے ہیں۔ شہید کا رتبہ بلا شبہ بہت بلند ہے لیکن ہمارے کئی ایسے جوان بھی شہادت کا رتبہ پا جاتے ہیں جن کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی ہوتیں اور گھر میں ان کی مائیں بہنیں اپنے دلوں میں ان کے سہرے کے
۳
خواب سجائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ جبکہ والد کی عمر بھر کی ریاضت اور خواب ان کے نوجوان بیٹوں کی صورت
میں اچانک بکھر جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے ہمارے وہ کون سے گناہ ہیں جن کا نشانہ ہمارے جوان بن رہے ہیں اور اپنی جوانیاں داغ رہے ہیں۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہماری قوم کے اجتماعی گناہوں کا ثمر ہے ملک میں بد امنی، بد انتظامی، بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کل کی ایک اور خبر نے سینہ چیر دیا کہ ایک ماں نے بھوک پیاس سے بلبلاتے اپنے تین لخت جگر وں کو زہر دے کر خود بھی زہر کھا لیا اور پیچھے ہمارے جیسوں کے لئے سوالیہ نشان چھوڑ گئی کہ تم بھی اس کے ذمہ دار ہو۔ ہمارے گردو نواح میں ہر روز بے شمار ایسے قصے کہانیاں سننے کو ملتے ہیں بچوں کی بھوک سے دلبرداشتہ باپ نے خود کشی کر لی۔ ان خود کشیوں کا ذمہ دار کون ہے ان کے ذمہ دار ہم سب ہیں جو رات کو پیٹ بھر کر سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر پھر پیٹ بھر کھاتے ہیں۔
ہم مسلمانوں کے ہاں گناہوں کا کفارہ دے کر ان سے توبہ کی جاتی ہے اور یہی سمجھا جاتا ہے کہ ہم اب ان کی نحوست سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں کفارے تو بے شمار ہو سکتے ہیں چند ایک کا میں نے ذکر بھی کر دیا ہے لیکن بحثیت ایک قوم ہم کتنے کفارے ادا کریں گے اور کیا ہم اس قابل بھی ہیں کہ ہمارے ادا کئے گئے کفارے خدا کے ہاں قبول بھی ہو جائیں یہ سوچنے کا اور توبہ کا مقام ہے اجتماعی توبہ کا۔ جس کی ہمارے ہاں اشد ضرورت ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button