
مشرق وسطیٰ
چترال کے علاقے دروش میں دودن بعد پشاور چترال شاہراہ دوسری مرتبہ احتجاج کے طور پر بند۔ سڑک سات گھنے بند ہونے بعد کھول دی گئی۔
مظاہرین نے کلدام گول کے مقام پر سڑک پر دھرنا دیکر اسے سات گھنٹوں تک ہر قسم ٹریفک کیلیے بند کرتے ہویے مطالبہ کیا کہ شاہ نگار میں بدھ کے روز جو دو افراد کو بے دردی سے قتل کیے گیے تھے ان کے قاتل کو فوری گرفتار کیا جائے.
چترال پاکستان (نمائندہ وائس آف جرمنی گل حماد فاروقی): چترال کے علاقے دروش میں عوام نے ایک ہفتے می دوسری مرتبہ پشاور چترال شاہ راہ کو احتجاج کے طور پر ہر قسم کے ٹریفک کیلیے بند کیا تھا جس کی وجہ سے سینکڑوں مسافروں کو مشکلات کا سامنا ہوا۔ مظاہرین نے کلدام گول کے مقام پر سڑک پر دھرنا دیکر اسے سات گھنٹوں تک ہر قسم ٹریفک کیلیے بند کرتے ہویے مطالبہ کیا کہ شاہ نگار میں بدھ کے روز جو دو افراد کو بے دردی سے قتل کیے گیے تھے ان کے قاتل کو فوری گرفتار کیا جائے.
تفصیلات کے مطابق لویر چترال میں تحصیل دروش کے عوام نے دو دن بعد دوسری مرتبہ پشاور چترال شاہ راہ کو احتجاج کے طو پر بند کیا تھا۔ بدھ کے روز دروش کے علاقے شاہ نگار سے تعلق رکھنے والے دو افراد اشرف علی اور احسان الدین کو اس وقت بے دردی سے قتل کیا گیا جب وہ شاہ نگار کے جنگل سے جلانے کی لکڑی لارہے تھے۔ علاقے کے لوگوں نے اس وقت ان کی لاشیں دروش چوک میں سڑک پر رکھ کر پشاور چترال شاہ راہ کو ہر قسم ٹریفک کیلیے بند کیا تھا۔ بعد میں سب ڈویژنل پولیس افیسر دروش اقبال کریم نے یقین دہای کرایی تھی کہ ملزمان کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر گرفتار کیے جاییں گے جس پر مظاہرین نے راستہ کھولا تھا۔ مقررہ وقت حتم ہونے کے باوجود جب ملزمان گرفتار نہیں ہویے تو ویلیج کونسل شاہ نگار کے چیرمین وقار احمد کے کال پر اٹھارہ مساجد کے لوگ ایک بار پھر کلدام گول چوک میں جمع ہویے۔
مظاہرین نے ایک بار پھر احجاج کے طور پر پشاور چترال شاہ راہ پر دھرنا دیکر اسے ہر قسم ٹریفک کیلیے سات گھنٹوں تک بند رکھا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں بری طرح ناکام ہویے اسلیے وہ دوبارہ احتجاج کرنے پر مجبور ہویے۔ اس موقع پر ایک احتجاجی جلسہ بھی ہوا جس سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے اظہار حیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ حالیہ واقعہ چترال کی پرامن ماحول کو جا بوجھ کر حراب کرنے کی ایک سازش لگ رہی ہے اور پولیس ملزمان کے ساتھ ملی ہوی ہے یہی وجہ ہے کہ تین دن گزر گیے مگر ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے۔
اس موقع پر مظاہرین نے پولیس اور ضلعی انتظآمیہ کے حلاف نعرہ بازی بھی کی۔بعد میں ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرتے ہویے یقین دہانی کرای کہ ملزمان کو دو دن کے اندر گرفتار کرکے ان کے گھروں کو بھی مسمار کیا جایے گا جس پر مظاہرین نے دھرنا حتم کرتے ہویے سڑک کو ٹریفک کیلیے کھول دیا۔احتجاجی جلسہ اور دھرنا میں شریک لوگوں سے حطاب کرتے ہویے علاقے کے عمایدین نے کہا کہ ملزمان کا تعلق گجر برادری سے ہے جنہوں نے غیر قانونی طور پر عوامی چراہ گاہ اور جنگل پر قبضہ کرتے ہویے وہاں مکان بنایا ہوا ہے مگر اس انتظامیہ نے مکمل خاموشی احتیار کی ہے اور ابھی تک ملزمان گرفتار نہ ہوسکے۔
مقررین نے کہا کہ ہمارے پاس اگر شکار کیلیے بارہ بور بندوق بھی ہو تو اس پر بھِی پولیس ہمارے گھروں پر چھاپہ مار کر ہمیں گرفتار کررہے ہیں مگر ان ملزمان کے پاس اتشین اسلحہ رکھنے کے باوجود پولیس نے ان کے حلاف ابھی تک کوی کاروای کیوں نہیں کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پولیس کو بھِی خوش رکھتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق لویر چترال میں تحصیل دروش کے عوام نے دو دن بعد دوسری مرتبہ پشاور چترال شاہ راہ کو احتجاج کے طو پر بند کیا تھا۔ بدھ کے روز دروش کے علاقے شاہ نگار سے تعلق رکھنے والے دو افراد اشرف علی اور احسان الدین کو اس وقت بے دردی سے قتل کیا گیا جب وہ شاہ نگار کے جنگل سے جلانے کی لکڑی لارہے تھے۔ علاقے کے لوگوں نے اس وقت ان کی لاشیں دروش چوک میں سڑک پر رکھ کر پشاور چترال شاہ راہ کو ہر قسم ٹریفک کیلیے بند کیا تھا۔ بعد میں سب ڈویژنل پولیس افیسر دروش اقبال کریم نے یقین دہای کرایی تھی کہ ملزمان کو اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر گرفتار کیے جاییں گے جس پر مظاہرین نے راستہ کھولا تھا۔ مقررہ وقت حتم ہونے کے باوجود جب ملزمان گرفتار نہیں ہویے تو ویلیج کونسل شاہ نگار کے چیرمین وقار احمد کے کال پر اٹھارہ مساجد کے لوگ ایک بار پھر کلدام گول چوک میں جمع ہویے۔
مظاہرین نے ایک بار پھر احجاج کے طور پر پشاور چترال شاہ راہ پر دھرنا دیکر اسے ہر قسم ٹریفک کیلیے سات گھنٹوں تک بند رکھا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے میں بری طرح ناکام ہویے اسلیے وہ دوبارہ احتجاج کرنے پر مجبور ہویے۔ اس موقع پر ایک احتجاجی جلسہ بھی ہوا جس سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماوں نے اظہار حیال کیا۔ مقررین نے کہا کہ حالیہ واقعہ چترال کی پرامن ماحول کو جا بوجھ کر حراب کرنے کی ایک سازش لگ رہی ہے اور پولیس ملزمان کے ساتھ ملی ہوی ہے یہی وجہ ہے کہ تین دن گزر گیے مگر ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے۔
اس موقع پر مظاہرین نے پولیس اور ضلعی انتظآمیہ کے حلاف نعرہ بازی بھی کی۔بعد میں ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کرتے ہویے یقین دہانی کرای کہ ملزمان کو دو دن کے اندر گرفتار کرکے ان کے گھروں کو بھی مسمار کیا جایے گا جس پر مظاہرین نے دھرنا حتم کرتے ہویے سڑک کو ٹریفک کیلیے کھول دیا۔احتجاجی جلسہ اور دھرنا میں شریک لوگوں سے حطاب کرتے ہویے علاقے کے عمایدین نے کہا کہ ملزمان کا تعلق گجر برادری سے ہے جنہوں نے غیر قانونی طور پر عوامی چراہ گاہ اور جنگل پر قبضہ کرتے ہویے وہاں مکان بنایا ہوا ہے مگر اس انتظامیہ نے مکمل خاموشی احتیار کی ہے اور ابھی تک ملزمان گرفتار نہ ہوسکے۔
مقررین نے کہا کہ ہمارے پاس اگر شکار کیلیے بارہ بور بندوق بھی ہو تو اس پر بھِی پولیس ہمارے گھروں پر چھاپہ مار کر ہمیں گرفتار کررہے ہیں مگر ان ملزمان کے پاس اتشین اسلحہ رکھنے کے باوجود پولیس نے ان کے حلاف ابھی تک کوی کاروای کیوں نہیں کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پولیس کو بھِی خوش رکھتے ہیں۔