
مومن کو غوروفکرکرنالازمی ہے؟
غور وفکر مومن کی پہچان ہے کیونکہ اسے پتہ ہے اللہ نے اسے دنیا میں بھیج کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ انسان کو بھی ایک مقصد دے کر بھیجا اور اسے بتا دیا کہ اس کے پاس دو راستے ہیں جن میں سے ایک پر چل کر وہ جنت کا حقدار ہو گا اور دوسرے یعنی شیطان کے راستے پر چل کر وہ دوزخ خریدے گا -
اس سے مراد انسان کا دنیا کے بارے میں جاننا اس میں موجود اللہ کی تخلیقات پر نظر دوڑانا اور کوشش کرنا کہ اللہ کی ان تخلیقات کو بنانے کا مقصد کیا ہے ان پہ غورو فکر کرنا کیونکہ پوری دنیا اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں سے بھری پڑی ہے انسان تدبر سے کام لے گا تو اسے جابجا اللہ کی نشانیاں نظر آئیں گی اور وہ اللہ سے قریب ہو گا اپنے آنے کے مقصد کو بھی سمجھے گا اور اپنے اور رب کے درمیان تعلق کو مضبوط کرے گا-اسے سمجھ آئے گی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کو بے مقصد پیدا نہیں کیا-اور اس بات کی تصدیق قرآن پاک میں بھی کر دی گئی –
سورہ آل عمران میں رب تعالیٰ خود فرماتا ہے –
"جو لوگ آسمان و زمین کے بارے میں غوروفکر کرتے اور کہتے ہیں کہ تو نے یہ کائنات بےکار پیدا نہیں کی-”
غور وفکر مومن کی پہچان ہے کیونکہ اسے پتہ ہے اللہ نے اسے دنیا میں بھیج کر چھوڑ نہیں دیا بلکہ انسان کو بھی ایک مقصد دے کر بھیجا اور اسے بتا دیاکہ اس کے پاس دو راستے ہیں جن میں سے ایک پر چل کر وہ جنت کا حقدار ہو گا اور دوسرے یعنی شیطان کے راستے پر چل کر وہ دوزخ خریدے گا –
انسان کو علم وعقل دے کر ایک بہت بڑی نعمت سے نوازا گیا-
اور اسے بتا دیا گیا کہ جو لوگ اللہ کے احکامات سے پھرے اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا ان کے لئے دردناک عذاب ہے جبکہ وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کیا اور اللہ کی بنائی ہوئی کائنات پر غوروفکر کرتے رہے اس کی جابجا پھیلی نشانیوں سے جہاں اپنے رب کو پہچانا وہیں سرکش اور نافرمان لوگوں کی عبرتناک سزاؤں سے سبق سیکھا کہ وہ نافرمانی کے رستے پہ نہیں چلیں گے بلکہ اللہ کے بتائے ہوئے رستے پہ چل کر ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہونگے –
کیونکہ جب انسان اپنی پیدائش سے لے کر زندگی اور پھر موت کے بارے میں سوچتا ہے تو اسے اس دنیا کی حقیقت سے ادراک ہوتا ہے اور وہ نفسانی خواہشات کی پیروی کی بجائے اللہ سے دل لگاتا ہے اس کی عبادت میں مصروف ہو جاتا ہے اس کی طبعیت میں عجزو انکساری جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں –
مومن کی یہ خاصیت ہے کہ وہ غوروفکر سے اپنے آپ میں مثبت تبدیلی لا کر رب کے قریب ہوتا جاتا ہے وہ قرآن پاک کی آیات کو پڑھتاہے اور پھر تدبر سے کام لیتے ہوئے اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش میں سرکرداں رہتا ہے-
کیونکہ کلامِ الہی میں غوروفکر کی بڑی تاکید کی گئی ہے-
ارشاد ہوتا ہے”:
” یہ مبارک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں("سورہ ص)
اور جو لوگ قرآن پاک میں تدبر اور غوروفکر نہیں کرتے ان کی سخت مذمت کی گئ ہے-
ارشاد باری تعالیٰ ہے-
” کیا یہ لوگ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے لگےہیں” "سورۃ محمد)
بہت سی احادیث میں بھی قرآن پاک میں غوروفکر کی تلقین کی گئی ہے-
"قرآن پاک کی تلاوت کرو جیسا اس کا حق ہے کلام پاک کی اشاعت کرو، اسے خوش آوازی سے پڑھو، اس کے معنی میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ”
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا-
"قرآن کی خبرگیری کرو – اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ءقدرت میں میری جان ہے قرآن پاک سینہ سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح اونٹ اپنی رسی سے چھوٹ جاتا ہے ”
انسان کی غوروفکر کی خصوصیت ہی اسے جانوروں سے ممتاز کرتی ہے کیونکہ انسان کو عقل و شعور کا خزانہ عطا کر دیا گیا ہے جس سے کام لے کر وہ حقائق سے باخبر ہو سکتا ہے اور اس کی سوچ محض ظاہریت تک محدود نہیں رہتی-
اس کائنات میں بے شمار راز پوشیدہ ہیں جو انسان کی اک نگاہ کے منتظر ہیں ایسی نگاہ جو غوروفکر کی صلاحیت رکھتی ہے – انسان جب غوروفکر سے کام لے گا تو کائنات کی حقیقت سے آشنا ہوتا جائے گا اور اس کا ایمان مزید مضبوط ہوتا جائے گا اور وہ رب کو پہچان لے گا –
پوری کائنات میں اللہ کی بے شمار نعمتیں موجود ہیں بہت سی نشانیاں بکھری پڑی ہیں اگر انسان ان میں غوروفکر کرے تو کائنات کے اسراروں سے پوری طرح واقفیت حاصل کرے گا-
آج اہل مغرب نے غوروفکر اور تدبر سے نت نئ ایجادات کر کے مادی ترقی حاصل کر کے اپنی زندگی کو بہت سہل بنا لیا اور یوں وہ ہر لمحہ ترقی کی منزل کی طرف گامزن ہیں –
اللہ نے انسان کے لئے بہت سی چیزیں پیدا کیں اسے عقل و شعور سے نواز کر یہ بتا دیا کہ وہ اپنی عقل سے کام لے کر اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے بھرپور فائدہ اٹھائے کیونکہ دوسری قومیں غوروفکر اور تدبر سے کام لے کر کامیابی کے راستے کی طرف گامزن ہیں – اور جو قومیں سوچ کا دائرہ وسیع نہیں کرتیں ذلت ان کا مقدر بن جاتی ہے – اللہ رب العزت نے اپنی الہامی کتاب میں بھی بار بار غوروفکر کی دعوت دی ہے –
"بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور دن کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں”
اللہ متعدد بار انسان کو تلقین کر رہا ہے
کہ وہ قدرت کے مظاہر پر غور کرے تو اسے اللہ کی وحدانیت کا یقین ہو جائے گا-
پھر ارشاد فرمایا :
"اور یقین والوں کے لئے زمین میں نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی پھر کیا تم دیکھتے نہیں – ”
اسلئے یہ ضروری ہے کہ انسان غوروفکر اور تدبر کو اپنائے کیونکہ اس کے بنا انسان اپنے رب کو پہچاننے سے بھی قاصر رہتا ہے –
"امام غزالی” اس بارے میں فرماتے ہیں
تدبر سے انسان کے علم حاصل ہوتا ہے علم حاصل ہونے سے دل کی دنیا بدل جاتی ہے جب دل میں انقلاب آتا ہے تو اعضاء انسانی کے اعمال بھی بدل جاتے ہیں – یعنی اعمال انسانی احوال قلب کے تابع ہیں دل کے احوال علم کے زیر اثر ہیں اور علم تدبر و تامل کا نتیجہ ہے اس سے یہ واضح ہوا کہ تدبر و تفکر تمام نیک اعمال کا سرچشمہ ہے – اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ تدبر ذکر الٰہی سے افضل ہے کیونکہ اس میں ذکر الٰہی سے ایک زائد وصف موجود ہے جو ذکر میں نہیں – چونکہ تدبرو تفکر دل کا عمل ہے ظاہر ہے دل کا عمل اعضاء کے عمل سے افضل ہوتا ہے بنابریں یہ ثابت ہوا کہ تدبر تمام اعمال سے بڑھ کر ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ ایک گھڑی کا تفکر رات بھر کی نماز گزاری سے افضل ہے "-
قرآن کے علاوہ احادیث میں بھی غوروفکر کی تلقین کی گئ ہے -حضرت عبداللہ عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے انہیں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا-
” خدا کی مخلوق میں غور کیجیے مگر خدا کی ذات کے بارے میں فکرو تامُل سے احتراز کیجیے کیونکہ تم اس کا حق ادا نہیں کر سکتے -”
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ایک لمحہ سوچ بچار کرنا ایک شب کے قیام سے بہتر ہے”-
حضرت فضیل بن عیاص فرماتے ہیں تدبر و تفکر ایک آئینہ ہے جس میں تم اپنے اچھے یا برے اعمال کا عکس دیکھ سکتے ہو”-
حضرت علی ہجویری فرماتے ہیں –
” اس شخص پر تعجب ہے جو جنگلوں اور خطرناک بیانوں کو طے کر کے مکہ مکرمہ پہنچتا ہے لیکن وہ اپنے نفس کے جنگلوں اور گناہوں کے دریا کو عبور کر کے اپنے دل تک رسائی حاصل نہیں کرتا-”
لہذا انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ تدبر و غوروفکر کی خوبی کو اپنائے کیونکہ اگر وہ قرآن پاک میں غوروفکر کرتا ہے تو اس سے اس کے لئے حکمت و معرفت، دانش و بصیرت کے راستے کھلتے ہیں –
اگر وہ کائنات پہ غوروفکر کرتا ہے تو اسے معرفت الٰہی حاصل ہوتی ہے –
تدبر ذکر الٰہی سے افضل ہے-اور سب سے بڑھ کر تدبر وتفکر تمام اعمال صالحہ کا سر چشمہ ہے –
اس لئے انسان کو تدبر و تفکر کو اپنا کر نہ صرف نت نئی ایجادات کو متعارف کرانا چاہیے بلکہ اس کی بدولت ہی اس پر علم کے دروازے کھلیں گے اور وہ کامیابی کے رستے پر گامزن ہو گا –