اطہر قادرحسنکالمز

ریاست ماں جیسی ہوتی ہے(غیر سیاسی باتیں….. اطہر قادرحسن)

ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور پاسداری بھی ایسے ہی کرے جیسے ماں اپنے بچوں کو کسی بھی ناگہانی حالت میں اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے ماں ہر مشکل اور تکلیف برداشت کر لیتی ہے لیکن اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کو گرم ہوا بھی نہ لگے جس سے اس کو تکلیف ہوتی ہو

ماں اور اولاد کا بے لوث تعلق لفظوں کا محتاج ہر گز نہیں ہے کیونکہ دنیا کا یہ واحد تعلق ہے جو کسی مفاد باہمی کے بغیر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ جس میں ہر دو فریق بغیر کسی طمع اور لالچ کے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں۔ ماں اولاد پر اگر جان نچھاور کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے تو اولاد بھی جنت کی تلاش میں ماں کی قدم بوسی کو اپنا مطمع زندگی سمجھتی ہے۔ جدید دنیا میں ریاست کے اپنے شہریوں سے تعلق کوماں جیسے تعلق سے تشبیہ دی جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور پاسداری بھی ایسے ہی کرے جیسے ماں اپنے بچوں کو کسی بھی ناگہانی حالت میں اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے ماں ہر مشکل اور تکلیف برداشت کر لیتی ہے لیکن اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کو گرم ہوا بھی نہ لگے جس سے اس کو تکلیف ہوتی ہو۔ اسی طرح شہری بھی ریاست سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان سے ماں جیسا ہی سلوک کرے گی۔ لیکن جب کسی مشکل صورتحال میں ریاست کے کار پرداز ریاست کی بقاء کی جنگ لڑتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ریاست اور عوام کا تعلق مشروط ہوتا ہے اور ریاست کی جنگ میں اگر عوام کو جھونک دیا جائے اور ان کے گھروں کے چولہے بجھا دئیے جائیں اور ان چولہوں کی جگہ ان کے دل جل رہے ہوں تو اس صورتحال میں ریاست اور عوام کا تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ریاست پاکستان میں عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کا نتیجہ ہم آج یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستانی عوام ملک بھر میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کو ہاتھوں میں اٹھائے سڑکوں پر سینہ کوبی کر رہے ہیں کیونکہ ان بلوں نے ان کے گھروں کو روشن کرنے کی
۲
بجائے ان کے دلوں کو جلا دیا ہے اور وہ جلے دلوں کے ساتھ احتجاج پر مجبور کر دئیے گئے ہیں۔ پاکستان میں ایک روایت پڑ چکی ہے کہ جب تک کسی زیادتی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج نہ کیا جائے اس زیادتی کا حکومتی سطح پر ازالہ نہیں ہوتا ہے۔ حکومت کے کان پر جوں بھی تب ہی رینگتی ہے جب عوام احتجاج کرنے کے لیے ان کے دروازے آن موجود ہوتے ہیں۔
سابقہ حکمرانوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کرنے کے بعد جس ظالمانہ طریقے سے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کیا گیا اس کے بعد عوامی احتجاج کی پیش گوئی تو بہت پہلے سے ہی کی جارہی تھی کیونکہ یہ تو ممکن نہیں ہے کہ پاکستان جہاں پرفی کس آمدن دنیا بھر میں انتہائی کم ہے وہاں پر عوام اتنے بھاری بھرکم ٹیکسوں کو برداشت کرنے کی سکت ہر گز نہیں رکھتے اور وہی ہوا ہے کہ جیسے ہی عوام کی جیب خالی ہوئی ہے کہ وہ اگر بجلی کے بل ادا کرتے ہیں تو بچوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے اور زندگی کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے۔ ان حالات کا اصل ذمہ دار کون ہے اس بات کا تعین کرنا ضروری ہے موجودہ نگران حکومت کے تو یہ بلا گلے پڑ گئی ہے جسے وہ طوہاً کراہاً ٹالنے کی بساط بھرکوشش کر رہی ہے۔ عوامی سطح پر اس بات کا بہت چرچا ہے کہ سرکاری ملازمین کو مفت بجلی کی فراہمی اس بحران کی ایک بڑی وجہ ہے سرکاری ملازمین میں واپڈا سے منسلک ملازمین کو مفت بجلی کی سہولت کے اعدادو شمار بھی خبروں کی زینت بن رہے ہیں لیکن ساتھ ہی کچھ ایسے سرکاری افسران اورا دارے بھی شامل ہیں جن کے ملازمین ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں اور ساتھ ہی بجلی اورپٹرول کی مد میں ان کو اضافی ادائیگیاں بھی کی جاتی ہیں۔بجلی کے محکموں کے ملازمین کوایک مقررہ حد تک مفت بجلی کی سہولت کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کو اس ادارے سے وابستہ سہولیات مفت یاارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتی ہیں لیکن اگر یہی سہولت کسی اور ادارے کے ملازمین کو بھی مفت فراہم کی جارہی ہو تو عوام سوالات
۳
اٹھانے میں حق بجناب ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں اس قدر خوفناک اضافہ کیسے ہوا کہ عوام بلوں کی ادائیگی کے قابل نہیں رہے اور بغیر کسی لیڈر کے سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگر ماضی میں چلے جائیں تو یہ قصہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں 1994 میں نجی شعبہ میں بجلی کی پیداواری کمپنیوں کے اجازت نامے سے شروع ہوا جنہوں نے تیل کے ذریعے بجلی کی پیداوار شروع کی جو کہ لامحالہ بہت مہنگا سودا ہے لیکن یہ مہنگا سودا عوام پر لاگو کر دیا گیا اس سے ملک میں بجلی کی ضرورت تو کسی حد تک پوری ہو گئی لیکن وقت کے ساتھ پیداواری لاگت میں اضافے نے بجلی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں عوام کے لئے ایک مصیبت کھڑی کردی۔ بعد ازاں مسلم لیگ نواز کی حکومت میں چین سے کوئلے اور تیل سے چلنے والے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے لگوائے گئے جنہوں نے حقیقت میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان نجی کمپنیوں کے ساتھ ایسے معاہدے کئے گئے کہ جن کی تفصیلات اگر عوام کے ساتھ شئیر کر دی جائیں تو عوام ان بجلی کارخانوں کو آگ لگا دیں۔ بجلی نہ بنانے کی صورت میں بھی ان پیداواری کمپنیوں کو ماہانہ کئی ارب کی ادائیگیاں ڈالر میں کی جارہی ہیں جو کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی اصل وجہ ہیں۔ ہماری حکومتوں نے پانی سے سستی بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے شارٹ کٹ کا راستہ اختیار کیا اور تیل سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ حوصلہ افزائی عوام کے گلے پڑ گئی ہے اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں عوام کے اس چنگل سے چھٹکارے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
شروع میں عرض کیا تھا کہ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے لیکن ہم پاکستانیوں کے لئے ریاست ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے اور عوام اگر بجلی کا بل دیتے ہیں تو بچوں کے لئے کھانا نہیں ہوتا اگر کھانے کا بندوبست ہوتا ہے تو سکول کی فیس نہیں ہوتی علاج معالجہ تو کہیں بعد میں آتا ہے مہنگائی کی گھمبیر
۴
صورتحال میں بچے والدین کی پریشانیوں کو بھانپ کر پولیس کی ہیلپ لائن پر فون کر کے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کتنے دن سے بھوکھے ہیں۔ عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے کیا منصوبہ بند کر رہی ہے جن کے مثبت اثرات ان کی روز مرہ زندگیوں پر ہوں۔ عوام ریاست سے ماں جیسے سلوک کے منتظر ہیں پریشانی یہ ہے کہ کہیں یہ انتظار طویل نہ ہو جائے اورعوام کے صبر کا پیمانہ جو کہ لبریز ہو چکا ہے کہیں چھلک نہ جائے؟۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button