آپامنزہ جاویدکالمز

اردو ہماری قومی زبان…..منزہ جاوید اسلام آباد

بچہ پہلے چھ کلمے اور ایمان کی صفیں یاد کرتا تھا. دینی تعلیم حاصل کرتا تھا. نورانی قائدہ بچے کے ہاتھ میں ہوتا جسے وہ بہت محبت احترام سے بھیچ کر سینے سے لگاۓ مسجد جاتا تھا

کیا خوب پہلا گزار زمانہ تھا جب تقریباً ہر امیر غریب کے
بچے کو ابتدائی تعلیم کے لیے سب سے پہلے مسجد بھیجا جاتا تھا.
بچہ پہلے چھ کلمے اور ایمان کی صفیں یاد کرتا تھا. دینی تعلیم حاصل کرتا تھا. نورانی قائدہ بچے کے ہاتھ میں ہوتا جسے وہ بہت محبت احترام سے بھیچ کر سینے سے لگاۓ مسجد جاتا تھا
اور جب پانچ کی عمر کو پہنچتا تو ریاست کی طرف سے کھولے گے سرکاری اسکول میں داخل کروایا جاتا
کیونکہ وہ مسجد میں الف بے سے واقفیت حاصل کر چکا ہوتا تھا کیونکہ عربی اور اردو کے حروف تہجی تقریباً ایک جیسے ہیں پس ادائیگی میں فرق ہے تو پہلی جماعت اسے اتنی مشکل نہیں لگتی تھی
اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر وہ تعلیم حاصل کرتا اسے احساس ہوتا
علم کتنی بڑی نعمت ہے. وہ استاد کا ادب احترام سیکھتا تعلیم کی اہمیت سے واقف ہوتا اُس وقت تعلیم علمی مرتبے کا نام نا تھا اور نہ ہی دولت کمانے کا ذریعہ
اس ٹاٹ سے کرسی تک پہنچا اسکا خواب تھا اکثر بچے استاد بننا پسند کرتے تھے. اردو تختی پر لکھوائی جاتی جس سے بچوں کی اردو کی لکھائی بہت اچھی تھی.
یہی ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھنے والے سرکاری اسکول کے بچے بڑے ہو کر سائینس دان ‘ حج’ وکیل’ مفتی’ علماء کرام’اور ڈاکڑ بھی بنے یعنی ہماری نظر میں اور دنیاوی طور پر جو اونچا مقام تھا وہاں تک یہ بچے پہنچے.
اس کے پیچھے ان کی محنت اور لگن اور اساتذہ کی شاگرد سے محبت اور محنت شامل تھی.
پھر نجانے کس نے انگریزی سکول کھول دیے جس نے امیر غریب میں واضح فرق اور دوری پیدا کر دی امیر کا بچہ شروع سے ہی قیمتی لباس پہن کر ٹائ لگاۓ انگریزی اسکول جاتا جہاں اسے وہ میز کرسی والا کمرہ ملتا استاد اور بچے برابر بیٹھتے بتایا گیا فیس بھرو گے انگریزی پڑھو گے تو احترام درپشت ڈال کر استاد کے برابر بیٹھو گے.
یوں احساس کمتری کو بیدار کیا گیا..
جبکہ ذہین ترین بچے سرکاری سکولوں کے تھے لیکن اعلی ملازمت کے لیے انگریزی بولنے والے کو ترجیح دی جانے لگی. اسطرح ہاتھ میں انگریزی کی چھڑی لے کر بچوں اور ماں باپ کو وذہینی کشمش میں
مبتلا کر کڑورں روپے انگریزی سیکھنے کی مد میں کماۓ جانے لگے انگریزی اسکول میں بچے کو تین سال کی عمر میں داخل کروا دیا جاتا ہےجس کے نتیجے میں صبح بچے روتے چلاتے سکول جاتے ہیں .اب تو شاید اڑھائی سال کا بچہ بھی سکول جارہا ہے
ہر گھر میں ایک اضافی خرچہ بڑھ گیا ہے ذہینی ٹیشن بڑھ گی ہے . یہی پیسہ جو ماں باپ ضروریات زندگی یا روزگار میں اضافے کے لیے استعمال کرتے تھے انگریزی اسکولوں کی نظر ہونے لگا. بچوں کے قیمتی لباس جوتے فیس کتابیں اور روز روز کے نت نۓ پروگرامز کے الگ خرچوں نے مشقت اور پیسے کے حصول کو نمبر ون کر دیا ہر کوئ پیسے کے پیچھے دکھاوے کی خاطر جیسے تیسے ہو ییسہ کماؤں پر چل پڑا ہے اور بچوں کے ذہین میں بھی یہی بھر دیا گاہے کہ انگریزی پڑھو گے تو کامیابی ممکن ہے انگریزی پڑھ کر پیسے کمانے ہیں
اس طرح غیر ممالک ہمارے غریب ملک سے کڑورں روپے بٹوارنے لگے ملک کی کمائی جو اس ملک کی ترقی کاروبار میں استعمال کر سکتے تھے آرام سے ملک سے باہر جانے لگی.
محترم جیسا کہ آپ جانتے ہیں زبان اُردو ایک شائستہ اور مخذب زبان ہے اس میں ادب و احترام ہے اس کا لہجہ میٹھا ہے بولنے والا جب طریقے سلیقے سے بات کرتا ہے تو سننے والے کے کانوں کو بھلی لگتی ہے دوسرا بھی جواباً آپ سے میٹھے شیریں لہجے میں بات کرتا ہے اس زبان سے گھروں میں رشتوں میں ادب تھا مل کر بات کرنے سے محبت بڑھتی تھی. ہم نے انگریزی کے شوق میں اپنے بچوں کے اخلاق تک بگاڑ دیا
لفظ آپ کا استعمال ختم ہو گیا بات یو تک آگئی
ابو جان امی جان کی جگہ ماما پاپا لے آۓ خالہ جان پھوپھو جان کی جگہ آنٹی نے لے لی چچا جی تایا جی کی جگہ انکل نے لے لی
تو لفظ بے جان ہو گئے ہم نے رشتوں کو ایک لفظ بنا دیا ان کے اندر سے کشش ختم کر دی قصور وار آج کے بچے نہیں ہم خود ہیں ہم نے شروع سے ہی بچوں کے سر پر انگریزی کو طاری کیا.
سمجھ سے بالاتر ہے کہ بھلا چھوٹے بچے کو انگریزی کی کیا ضرورت پڑ گئی
مانا کہ جوان بچوں بچیوں کو انگریزی کیا اور زبانیں بھی آنی چاہیے کیونکہ کچھ بچے بچیاں دوسرے ممالک میں پڑھنے جاتے ہیں تو وہاں کی زبان آتی ہو تو بولنے سننے سمجھنے آسانی رہتی ہے
کسی بھی زبان سے واقفیت بری بات نہیں لیکن سمجھ سے باہر ہے کہ معصوم بچے کے اوپر یہ ظلم کیوں؟
جبکہ عام سرکاری سکول سے پڑھ کر بڑی جماعت میں جب بچے پہنچتے ہیں تو انگریزی سیکھ لیتے ہیں
ویسے جس بچے بچی کو جب باہر کسی ملک جانا ہو تو تین مہینے چھ ماہ یاسال کا زبان سیکھنے کا کورس کر کہ وہ آسانی سے جس ملک جانا چاہے جا سکتا ہے
بہرحال آج کل ہمارے اور ہمارے بچوں میں دوریاں ملک میں ترقی کا کم ہونا ہر انسان کا پرشان ہونا ہمارا خود ساختہ ہے کسی قوم میں جب بگاڑ پیدا ہوتا ہے اس میں قصور اسی قوم کا ہوتا ہے وہ ملک ترقی کرتے ہیں جو قوم ایک دوسرے کا احترام کرنا جانتی ہو ایک دوسرے کے حقوق سے واقف ہو اگر محبت احترام ہو گا تو ذہنی سکون ہو گا جب گھروں میں وذہنی سکون ہو تو کاروبار کرنے والا بہتر طریقے سے کاروبار کرے گا فضول خرچے نہیں ہونگے تو آمدنی بڑھے گی . اب ہم نے خود سوچنا ہے ہم اپنے بچوں اپنے ملک کے لیے کیا کریں کیسے اپنے گھروں اور ملک کے حالات بہتر کریں
تو میرے خیال میں آسان ترین حل میٹھیے لہجے ہیں محبت ہے اور مٹھاس بھری اردو زبان کی طرف پلٹ آنا ہے
اپنے بچوں کو اور خود کو ذہنی غلامی اور وذہنی پریشانی سے آزاد کیجیئے.
ہم ریاست کو ہر جگہ قصور تو ٹھہراتے ہیں لیکن کبھی خود کی اصلاح نہیں کرتے
کیا دفتروں میں گھروں میں ریاست ڈنڈا پکڑے کھڑی دیکھ رہی ہے کہ انگریزی ہی بولنی ہے. ظلم تو یہ ہے کہ گھر چیز منگوانے کے لیے فون کرنا ہو تو ہم انگریزی بولتے ہیں انگریزی میں حکم دیتے ہیں
کسی ہوٹل میں چلے جائیں تو وہاں بیرے سے انگریزی بولتے ہیں ہم نے تو خود انگریزی کو اپنی زندگیوں میں لازم قرار دیے دیا ہے ہم ہر جگہ انگریزی بولیں گے تو بیچارے روزگار کے لیے ملازمتیں تلاش کرنے والے عام سی تعلیم کے مالک کیا کریں گے کون انکو نوکری پے رکھے گا ہم خود ترغیب دیتے ہیں دوسروں کو مجبور کر رہے ہیں کہ انگریزی پڑھو ورنہ کہیں نوکری نہیں ملے گی ہم روزی روٹی کمانے کے ذرائع کو خود مشکل بنا رہے ہیں
جب غریب دیکھتا ہے بچے کا انگریزی سیکھے بغیر کوئ مستقبل نہیں تو وہ مجبوراً اپنے بچے کو بھی انگریزی سکول داخل کرواتا ہے
کچھ تو اعلی افسران عہددارن اپنا رعب دبدبہ بٹھانے کے لیے انگریزی بولتے ہیں اور ان کےماتحت اپنا معیار اونچا کرنے کے وہم سے بھی انگریزی بول اور لکھ رہی ہوتے ہیں .
ہم اس قومی زبان کو پنپنے دے ہی نہیں رہے
انگریزی کو بڑھانے میں ہم سب قصور وار ہیں اس میں کسی کا حصہ زیادہ ہے اور کسی کا کم…
اور ہمیں چونکہ عادت ہے دوسروں کو الزام دیے کر خود سروخرو ہو کر بیٹھ جانےکی تو ہم اپنے آپ کو معصوم سمجھتے ہیں.
نفاذ اردو کی رکاوٹ ہم خود ہیں اور نقضان بھی خود اٹھا رہے ہیں روپے پیسوں کی شکل میں اور اخلاق کی گراوٹ کی شکل میں.
لیکن اگر ہم چاہیں تو آج سے اپنے آپ سے اردو کی ترقی اور فروغ کے لیے کام شروع کریں خود اردو بولیں اور لکھیں. جب کوئ محفل میں انگریزی بولے تو اسے محبت سے اردو میں بات کرنے کو کہیں ہم مہاجر نہیں کسی دوسرے ملک میں زندگی نہیں بسر کر رہے اپنے ملک میں ہیں اور آزاد ہیں آزاد قومیں اپنے ملک اپنی ثقافت اپنی تہزیب اپنی زبان کی حفاظت کرتیں ہیں.
آخر میں ایک تجویز ہے کہ
پہلے اپنے بچوں سے خالص اردو میں بات چیت کرنے کی عادت ڈالیے۔ روز مرہ کی اشیا کے نام اردو میں لیجیے۔اردو بولتے وقت انگریزی کے غیر ضروری الفاظ کے استعمال سے گریز کیجیے۔ اس طرح بچوں کو اردو الفاظ سے شناساٸی حاصل ہوگی،
وہ ان کے معنی سمجھنے لگیں تبھی وہ اردو کی کتابیں پڑھنے میں دلچسپی لیں گے۔
بچوں کے رسائل لگوا لیں ہر مہینے ۔پھول،تعلیم و تربیت ،روشنی ،بچوں کا اسلام
شروع میں مل کر پڑھیں ان کے ساتھ پھر انہیں عادت ہوجائے گی
بچوں کے ہفتہ وار اور ماہانہ رسائل لگوا لیں اس کے علاوہ اگر گھر میں اخبار آتا ہے تو اس میں جو بچوں کا صفحہ ہوتا ہے وہ انہیں پڑھنے کے لیے دیں ایک اور کام بھی آپ کر سکتے ہیں_ بچوں سے روزانہ کی بنیاد پہ ڈائری لکھوائیں_
اس سے انہیں جملے بھی بنانے آئیں گے , ان کی املاء میں بھی بہتری آئے گی اور ان کا ذخیرہ الفاظ بھی بڑھے گا_
ہمارے والد بچپن میں ہم سے ڈائری لکھواتے تھے جس میں ہم اس دن کی ہجری تاریخ اور عیسوی تاریخ لکھتے تھے_ قران پاک کی ایک آیت بمعہ ترجمہ لکھتے تھے _ ایک حدیث پاک ڈھونڈ کر ترجمے کے ساتھ لکھتے تھے _ ایک محاورہ لکھتے تھے انگریزی میں اردو ترجمے کے ساتھ_ ایک ضرب المثل انگریزی میں ڈھونڈ کر لکھتے تھے اردو ترجمے کے ساتھ اور اس کے علاوہ روزانہ کی جو کارگزاری ہوتی تھی وہ بھی ہم اس ڈائری میں لکھتے تھے_
میری سمجھتی ھوں کہ نظام تعلیم مکمل اردو میں ہونا چاہئے سب درست ہو جائے گا ۔ انگریز اپنی باقیات انگریزی کی صورت میں جو چھوڑ گیا ہے اس سے نجات ضروری ہے ۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button