سانوں کی ۔۔۔ اسی کی کر سکدے اہاں……منزہ جاوید اسلام آباد
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا فرمان عالی شان ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں جتنی دیر کرو گے اتنی بڑی قربانی دینی پڑے گی۔ اہل کوفہ نے ظلم و جبر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تو پوری اسلامی مملکت نے صدیوں تک جبر کی حکومتوں میں غلاموں جیسی زندگی بسر کی۔
سانوں کی ۔۔ یا اسی کی کر سکدے اہاں۔۔۔۔یہ فقرےہمارے معاشرے میں بکثرت بولے جاتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب اور اہمیت کسی کو بھی پتہ نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں فقرے زوال پذیر اور بیمار معاشروں کا شیوہ یا نشانی ہے۔
کیونکہ زندہ معاشرے کے افراد ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا اور ان کے خلاف عملی طور پر کوشش کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔
امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا فرمان عالی شان ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں جتنی دیر کرو گے اتنی بڑی قربانی دینی پڑے گی۔
اہل کوفہ نے ظلم و جبر کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے تو پوری اسلامی مملکت نے صدیوں تک جبر کی حکومتوں میں غلاموں جیسی زندگی بسر کی۔
تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہیں جس میں چپ کر جانے والے باقی کی ساری زندگی غلام بن کر گزارتے رہے۔
آپ اپنے گلی محلے میں دیکھے کسی بیمار شخص کو دیکھنے سب آئیں گے پر افسوس اس کی مدد کرنے کو کوئی تیار نہیں ہو گا۔
آپ سڑک کنارے جارہے ہوں آپ کے سامنے ہی ایکسیڈنٹ سے کوئی زخمی پڑا ہو گا تو آپ فورا بھاگ کر جائے گے اسے دیکھے گے کہ بچ گیا یا نہیں ۔ پھر چند منٹ پاس کھڑے ہو کر سب کچھ دیکھتےہووے آگے اپنے کام سے بڑھ جائے گے۔
کیونکہ آپ کی یہی سوچ ہو گی یار غلطی اس کی تھی یا ڈرائیور کی پر شکر اے یہ بچ گیا۔
باقی پولیس اور ایمبو لینس کو بلانے کی آپ زحمت نہیں کرے گے اور بڑبڑاتے آگے چل دیتے ہیں ۔ سانوں کی یا اسی کی کر سکدے اہاں۔
ارد گرد اور خاندان میں کئی ایسے مسئلے مسائل ہوتے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑھ کر کوئی بہت بڑی مشکل بن جاتی ہے پر یہاں بھی ہم لوگوں کی یہی سوچ ہوتی ہے سانوں کی ۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے اسی کی کر سکدے اہاں۔
سوشل میڈیا ، گرد و نواح میں کئی بچوں ، بچیوں کے ساتھ آئے روز زیادتی، ظلم اور تشدد کی خبریں سنتے رہتے ہیں بلکہ کئی تو سامنے سامنے ہوتے ہووے ہم مردہ ضمیر والے لوگ یہ سوچ کر اگنور کر دیتے ہیں ۔ سانوں کی۔۔۔۔؟
اسی طرح
حکومت سے اپنے جائز مطالبات منوا نہیں سکتے پر ان کو صبح شام گالیاں دینا اور سب لوگوں کے سامنے ان کے خلاف تقریریں کرنا ہمارہ پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے۔
اب جب ہر طرف سے مہنگائی کے طوفان نے اودھم مچایا تو پھر بھی ہم لوگوں کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے خلاف کیا کیا جائے اور اس کے خلاف کیسے آواز بلند کی جائے؟
بس اپنے گھر ، گلی اور محلے میں سب چوہدری بنے ہوے ہیں اور ایک دوسرے کو کوس رہے ہوتے ہیں پر ظلم اور نا انصافی کے خلاف کوئی نہیں نکلتا۔
میں یہ نہیں کہتی کہ ہاتھ میں تلواریں ، ڈنڈے لے کر سڑکوں پر نکل جائیں اور ہر کسی کے ساتھ لڑنا شروع کر دیں یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں ۔ میری بات کرنے کا صرف یہ مقصد ہے کہ اپنے حق کے لیےبولنا اور اس کے لیے آواز بلند کرنا سیکھنا چاہیے. کوئ اچھے معذب طریقے بھی ہوتے ہیں بات کرنے اور بات منوانے کے جس سے انتشار نہ پھیلے. ملکی املاک کا نقصان نہ ہو کیونکہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں.
ہمیں چاہیے
دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر ان کا ساتھ دیں اس کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوں ۔ دوسروں کی ماں بہنوں بیٹیوں کو اپنی ماں بہن بیٹی سمجھ کر اس کی عزت کریں اور ان کے خلاف اٹھنے والوں کا راستہ روکیں یاد رکھیں کوئ بھی برائ جب شروع ہوتی ہے تو وہ ایک جگہ رکتی نہیں بلکہ یہ چھوت کی وبا بن کر پھیلتی رہتی ہے ۔
یہ مت سمجھیں کہ یہ برائ آپ تک یا آپ کے گھر تک نہیں پہنچ سکتی.
اور سے لاتعلقی. بہت مہنگی پڑتی ہے اور یہ کہہ کر جان مت چھڑوائے کہ سانوں کی ۔۔۔۔۔ اسی کی کر سکدے اہاں۔
اگر یہ فقرے ہم روزمرہ زندگی سے نکال دیں تو ہمارے بہت سارے معامللات خود بخود حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
حکومتیں بہتر ہو جائیں گی۔ اور سب سے بڑھ کر ہمارا معاشرہ ٹھیک ہو جائے گا۔ ادارےٹھیک ہو جائیں گے۔
کیونکہ یہ ہم نے ہی کرنا ہے اور ہم ہی کرے گےاور ہم ہی کر سکتے ہیں۔اسی سے معاشرہ بے حسی سے باہر نکل کر آگے بڑھنے کی راہ پائے گا۔
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہوں۔