میری دنیا لٹ رہی تھی۔۔۔(غیر سیاسی باتیں….اطہر قادرحسن)
اس دنیا میں کئی ایک ایسے مشہور لوگوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کبھی دو وقت کی روٹی کے محتاج تھے لیکن وہی محتاج آج نہ جانے کتنوں کا پیٹ بھر رہے ہیں اور کتنے ان کے محتاج ہیں اور اب ان کا شمار دولت مندوں لوگوں میں ہوتا ہے
ہر انسان کی زندگی میں کئی مرحلے آتے ہیں جن میں غریبی، امیری، صحت، بیماری اور اس نوع کی زندگی کے دوسرے پہلو بھی ہیں جو آتے جاتے رہتے ہیں لیکن انسان جس کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے وہ ان مراحل سے اپنی استطاعت کے مطابق نبرد آزما ء ہوتا ہے اور ان سے عہدہ برآء ہونے کی تدبیر کرتا ہے۔ اس دنیا میں کئی ایک ایسے مشہور لوگوں کی مثالیں دی جا سکتی ہیں جو کبھی دو وقت کی روٹی کے محتاج تھے لیکن وہی محتاج آج نہ جانے کتنوں کا پیٹ بھر رہے ہیں اور کتنے ان کے محتاج ہیں اور اب ان کا شمار دولت مندوں لوگوں میں ہوتا ہے۔انسان کی یہی وہ حالت ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان آزمائشوں سے گزارتا ہے اور اللہ کے یہ بندے اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان کی غربت کے دن کاٹ دئیے اور اب ان کی وساطت سے کتنے ہی لوگوں کا روز گار وابستہ ہے۔ یہ سب دنیا کے عارضی تماشے ہیں لیکن جن اوصاف سے کوئی قوم بنتی ہے اور جنہیں کسی قوم کی علامت اور روائت اور تعارف سمجھا جاتا ہے اگر ان اوصاف کو نقصان ہو تو یوں سمجھئے کہ یہ وہ قومی نقصان ہے جو بڑی ہی مشکل سے پورا ہوتا ہے یا نہیں بھی ہوتا ہے۔ آج کے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں کسی سیاسی بحث کے دوران برسر عام پوری قوم کے سامنے بڑے معززین کے درمیان ہاتھا پائی ہوتی ہے اور بعض اوقات پروگرام کرنے والا بھی شرمندہ ہو کر پروگرا م بند کر دیتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے ان نام نہاد معززین پر جو بر سر عام ایسی حرکتیں کرتے ہیں اور ان کو معزز ین کی فہرست میں شمار کرنا اوریہ لفظ معززلکھتے ہوئے بھی شرم محسوس ہوتی ہے جو کسی صورت میں معزز نہیں ہیں بلکہ پتہ نہیں کیا ہیں۔
والد صاحب ایسے ہی کسی واقعہ کے رونما ہونے پرہمیشہ ایک بات سنایا کرتے تھے مرحوم ملک غلام نبی جو
کہ لاہور کی معزز برادری سے تعلق رکھتے تھے اور جن کی بہو یاسمین راشد کو آج کی سیاسی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل ہے کسی الیکشن کے موقع پر مرحوم ملک صاحب اور مخدوم جاوید ہاشمی کے درمیان مقابلہ تھا انتخابی مہم کے دوران جاوید ہاشمی نے اپنے حامیوں اور کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ فلاں گلی میں ہر گز نہیں جائیں گے کیونکہ وہاں ملک صاحب کی بیٹی کا گھر ہے اور انتخابی مہم میں کہیں کوئی غیر شائستہ بات نہ ہو جائے۔ یہ ہمارے پاکستانی سیاسی آداب اور کلچر کا ایک نمونہ تھا آج ایسی کوئی بات ہو تو مخالف کسی کی بیٹی بہن کا گھر ڈھونڈ کر اس کے سامنے نعرہ باز ی کریں گے اور غیر شائستہ زبان استعمال کریں گے اور اس کا عملی مظاہرہ پاکستانی قوم آج دیکھ بھی رہی ہے۔ یہی وہ قوم کا اجتماعی کردار تھا جس پر ہم زندہ تھے اور ایک قوم تھے اور ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں عزت کی زندگی بسر کرتی تھیں۔
آج کیا ہے بات کرتے ہوئے زبان لڑکھڑا جاتی ہے اور لکھتے ہوئے ہاتھ بھی کانپ جاتے ہیں شرم آتی ہے کہ ہماری تہذیب وثقافت تو ہر گز یہ نہ تھی۔ حیا تھی احترام تھارکھ رکھاؤ تھا لیکن پھریکایک تبدیلی آگئی اور آج یہ عالم ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب کہیں نہ کہیں کسی پاکستانی بچی کی کی عزت نہ لوٹ لی گئی ہو۔ حیرت ہے حکمرانوں پر جوصرف اس کا نوٹس لے لیتے ہیں اور بس اتنا ہی کافی ہو جاتا ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جس کا مشاہدہ ہم کررہے ہیں اور آج عصت دری کرنے والے درندے اگر پکڑے جائیں تو قانون کی موشگافیوں اور وکیلوں کے داؤ پیچ سے بری ہو جاتے ہیں۔ یہ اتنے بڑے واقعات ہیں جن سے زمین کانپ جاتی ہے لیکن یہ ہم انسانوں پر آرام سے گزر جاتے ہیں اور ہم اسے معمول کا ایک واقعہ سمجھ کر اپنے روز مرہ کے کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ہوتا کیا ہے کہ یہ مظلوم بچی اپنا بدلہ اور انتقام خود سے ہی لیتی ہے اور خود کشی کر کے یا اور کسی طریقے سے اپنی زندگی ختم کر لیتی ہے جس کی بربادی میں اس کا قطعاً کوئی قصور نہیں ہوتا۔ وہ پاکستانی بچی اس سانحہ کے بعد جیتے جی بھی مر تی ہے اور پھر جیتے جی مر بھی جاتی ہے۔
یوں قصہ تمام ہوتا ہے۔
بات قومی اخلاق اور اعلیٰ روایات سے شروع کی تھی جس کا آج شدید فقدان ہے اور ہر مکتبہ فکر کے نمائندے اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھو رہے ہیں اور اس دھوبی پٹکے سے عوام لطف اندوز ہورہے ہیں۔ یہ نمائندے جن کافرض قوم کی اخلاقی تربیت کا تھا عقدہ یہ کھلا کہ ان کی اپنی اخلاقی تربیت میں فقدان ہے جس کی گواہی ان کے اعمال دے رہے ہیں۔ دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام میں اخلاق کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے اس نظام کی بد صورتی یہی ہے کہ اس میں صرف مال دولت کو جمع کرنے پر ہی زور دیا گیا ہے اور اس مال و دولت کو ہی اخلاق کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔ صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ دنیا بھر کے بے مثل دانشور ابن خلدون جو کہ ماہر انسانیات اور معاشرتی امور بھی تھے انہوں نے کہا تھا کہ کسی کاروباری شخص اور تاجر کو اقتدار مت دو۔ ہم نے اور دنیا نے جب بھی ایسی حرکت کی اس نے خطا ضرور کھائی۔ امریکہ جیسے سرمایہ دارانہ نظام کے مرکز میں جب کاروباری شخصیات اقتدار میں آئیں تو ایسے ایسے گھپلے ہوئے کہ قوم دیکھتی رہ گئی۔ سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ہم اگر فی الحال اپنے آپ کو ہی دیکھ لیں تو اس سرمایہ دارانہ نظام نے ہمار حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور جو بات پہلے صرف اطلاعات تک محدود تھی لیکن اب ہمارا معاشی حکمران آئی ایم ایف ہم سے نہ صرف براہ راست مخاطب ہوتا ہے بلکہ احکامات دیتا ہے معلوم یہ ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف جیسے ادارے کے حکم پر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بیچا جارہا ہے اور اس پر کسی پاکستان کو تعجب بھی نہیں ہونا چاہئے پہلے جو کچھ پس پردہ ہوتا تھا اب یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور ہم آپ کچھ نہیں کر پا رہے صرف دیکھ رہے ہیں کیونکہ اب بات مشہور ضرب المثل حکم حاکم مرگ مفاجات تک پہنچ گئی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ جنہوں نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے وہ مجرمانہ طور پر
خاموش ہیں بقول شاعر۔
میری دنیا لٹ رہی تھی اور میں خاموش تھا
بات اخلاقی گراوٹ سے شروع کی تھی لیکن پریشان خیالی میں معاشی مسئلے تک پہنچ گئی کیونکہ یہ معاشی مسائل ہی ہماری اخلاقی گراوٹ کا ایک بنیادی سبب ہیں۔