سپریم کورٹ کے فل کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس منیب اختر کے درمیان تلخی ہوئی ہے۔
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
دوران سماعت ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل کے دوران کہا کہ آرٹیکل 191 میں لفظ ’لاء‘ کا مطلب ہے وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے، سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، مسٹر صدیقی، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں، 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیس التوا میں ہیں، میری ساتھی ججز سے درخواست ہے اپنے سوالات روک کر رکھیں، بینچ میں ہرکوئی سوال کرنا چاہتا ہے لیکن وکیل کی کوئی دلیل پوری تو ہونے دیں، چار سماعتوں کے باوجود یہ ہماری کارکردگی ہےکہ ایک کیس ختم نہیں ہوا، اگر آپ ہر سوال کاجواب دیں گے تو آپ کے دلائل مکمل نہیں ہوسکیں گے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ رولز میں لاء کی تعریف درج ہے، صرف یہ بتادیں آرٹیکل 191 میں لاء کا کیا مطلب ہے۔
جسٹس منیب کے سوال پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگرآپ نے پہلے ہی ذہن بنالیا ہے تو فیصلے میں لکھ لیجیےگا، وکیل کو جیسے مرضی دلائل دینا ہوں گے دے گا۔
اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ بینچ کا حصہ ہونے پر میرا حق ہے کہ میں سوال کروں۔
چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ظاہر ہے آپ سوال کرسکتے ہیں لیکن پہلے وکیل دلائل تو مکمل کریں۔ جسٹس منیب نے کہا کہ معذرت کے ساتھ میرا مسئلہ میرا سوال ہے اور اس کا جواب دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصل صدیقی اپنے دلائل مکمل نہیں کریں گے تو ہم ہمیشہ یہی کیس سنتے رہیں گے، اس لیے آپ پہلے اپنے دلائل مکمل کریں۔
اس پر جسٹس منیب نے کہا کہ میں اس بینچ کا حصہ ہوں اوریہ میرا استحقاق ہے کہ میں سوال پوچھوں، مجھے سوال پوچھنے سے روکا جائے گا تو بینچ میں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟