اطہر قادرحسنکالمز

یہ چمن یونہی رہے گا(غیر سیاسی باتیں…..اطہر قادرحسن)

پاکستان کے جو اس وقت حالات ہیں‘ ان حالات میں اگر نواب زادہ نصر اللہ خان کی یاد نہ آئے تو اور کیا ذہن میں آئے۔نواب زادہ نصراللہ خان پاکستان کے ایسے سیاستدان تھے جنھوں نے زندگی بھر سیاست کو کسی بند گلی میں کھڑا کرنے کے کھیل کی مخالفت کی

پاکستان میں حقیقی معنوں میں مفاہمتی سیاست یتیم ہے اور کوئی اس یتیم سیاست کے سر پر سچی مفاہمت ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں ہے، شاید پاکستان کے سیاسی میدان میں کوئی اتنا بڑا لیڈر موجود نہیں ہے جو اپنے ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کرپاکستان کی جمہوری سیاست کی یتیمی کو سمجھ سکے اور پھر اس سیاسی یتیمی کے احساس کو دور کر کے سب کے ساتھ چلنے کی روایت ڈالے۔
پاکستان کے جو اس وقت حالات ہیں‘ ان حالات میں اگر نواب زادہ نصر اللہ خان کی یاد نہ آئے تو اور کیا ذہن میں آئے۔نواب زادہ نصراللہ خان پاکستان کے ایسے سیاستدان تھے جنھوں نے زندگی بھر سیاست کو کسی بند گلی میں کھڑا کرنے کے کھیل کی مخالفت کی‘اگر کہیں ملکی سیاست بند گلی میں پہنچ گئی تو جب اور جیسے ہی موقع ملا نواب زادہ نصراللہ خان مفاہمت کا جھنڈا لے کر میدان میں آئے اور سیاسی گلی کا بند دروازہ کھول دیا۔

نواب زادہ نصراللہ خان کی سیاسی بصیرت اور دانشمندی پر تبصرہ کرنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے ۔ نواب صاحب آج کے کئی نام نہاد عوامی لیڈروں کے سیاسی استاد کا درجہ رکھتے تھے،مجھے پاکستان میں بننے والا کوئی ایسا سیاسی اتحاد یاد نہیں آتاجو نواب زادہ نصر اللہ خان کی شمولیت کے بغیر مکمل ہوا ہو۔قومی اتحاد کی سیاست ہو یا ایم آر ڈی کی تاریخ نوابزادہ نصراللہ خان سب سے آگے رہے ہیں۔

اپوزیشن کی سیاست ان کے گھر سے ہی شروع ہوتی تھی اور وہیں پر کامیابی کے بعد اختتام پذیر ہوتی تھی، وہ زندگی بھر کسی طمع اور لالچ کے بغیر اپنے شوق سے اپوزیشن کی سیاست کے سرخیل رہے اور اس شوق کی آبیاری میں انھوں نے اپنی آبائی جائیداد بھی جھونک دی۔
انھوں نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ اگر الیکشن میں ناکام ہو گئے ہیں تو ساز باز کر کے سینیٹر بن جائیں اور پھر وزارت لے لیں یا مارشل لاء کا ساتھ دے کر وزارت عظمیٰ لے لیں۔ انھوں نے ہمیشہ سیاسی میدان میں رہ کر سیاست کی اور ہر قسم کی ناکامیوں کو خوش دلی سے تسلیم کیا۔

ہماری سیاسی جماعتوں میں جس قسم کا مال پایا جاتا ہے اور عوامی نمایندگی کے معیار میں جو زوال آچکا ہے اس کے پیش نظر آج کی سیاسی دنیا میں نواب صاحب شاید ان کے لیے کچھ زیادہ مفید ثابت نہ ہوتے ۔ ان کی من مانیوں کے راستے تو پہلے ہی کھلے تھے مگر اب تو ان کو ٹوکنے والا بھی کوئی نہیں رہا ،سب واہ واہ کرنے والے ہیں۔

حکومت وقت اگرنواب صاحب سے تنگ رہتی تھی تو اپوزیشن ان کے ہاں ڈیرہ ڈالے رکھتی تھی ۔ سرکاری پارٹی ان سے اکتائی ہوئی رہتی تھی کہ وہ اس کے طرز حکمرانی کے لیے حرف برہنہ تھے۔ لیکن جب یہی حکومتی پارٹیاں اپوزیشن میں پہنچ جاتی تھیں تو ان کی سیاسی سرپرستی بھی نواب صاحب ہی کرتے تھے۔

آج کے قحط زدہ سیاسی دورمیں دور دور تک کوئی ایسا رہنماء نظر نہیں آتا جس کے احترام میں ہماری سیاسی جماعتیں خاموش ہو جائیں اور اس حبس زدہ ماحول میں خوشگوار موسم کی تلاش کریں۔
فوجی حکمرانی میں جمہوریت کی تلاش بھی نواب صاحب ہی شروع کرتے تھے اور ان کا سفر بحالی جمہوریت تک جاری رہتا تھاان کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی سیاست دان مسند اقتدار پر بیٹھا ہو ۔ لیکن نواب صاحب اکثر یہ بھی کہتے تھے کہ میری لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہوتی ہے کہ میں جن کے مطالبے اور خواہش پر جمہوریت کے لیے کوششیں کرتا ہوں وہی گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر جمہوریت مخالف قوتوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں اور طوفان کے گزرنے اورغبار کسے چھٹنے کا انتظار کرتے ہیں مگر ان حالات میں بھی نواب صاحب نہ حکمران کی التفات کی تلاش میں نکلتے اور نہ کسی طوفان کے تھمنے کا انتظار کرتے بلکہ وہ اسی طوفان کی شدت سے دبی ہوئی راکھ میں سے چنگاریاں تلاش کرتے اور سیاست کو حدت فراہم کرتے تھے اور پھر وہ وقت آجاتا جب وہ اپنی سرخ قراقلی ٹوپی اور اچکن پہن کر میدان میں آجاتے۔ وہ زندگی بھر سیاسی میدان میں یہی مشقت کرتے رہے اور یہ درست کہا جاتا تھا کہ وہ لیڈروں کے لیڈرتھے۔
ان کا ایک مشہور شعر ہے کہ
یہ چمن یونہی رہے گا اور ہزاروں جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
نواب صاحب کو رخصت ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں، طویل عرصے سے عوام کے کان ایسی بولیاں سننے کو ترس رہے ہیں جو ان کے کانوں کو بھلی لگتی تھیں اور بعض اوقات ان کے دلوںودماغ میں سرسراہٹ پیدا کر دیتی تھیں ۔
عوا م جو ظاہر ہے کہ غیر منظم ہوتے ہیں سیاسی قائدین ہی ان کو منظم کرتے ہیں اور کسی پلیٹ فارم پر لاتے ہیں لیکن عوام کے دل میں کسی اچھے قائد کی شدید خواہش ہر وقت زندہ رہتی ہے جسے دوسرے الفاظ میں وہ نجات دہندہ کا نام دیتے ہیں۔ نواب صاحب حلقے کی سیاست پر کم ہی توجہ دیتے تھے، وہ تھانے کچہریوں والے سیاست دان ہر گز نہیں تھے، وہ ایک ایسی مقبول عام شخصیت تھے جن کا حلقہ پورا ملک اور ووٹر پوری قوم تھی اور اس طرح وہ پوری قوم کا ایک سہارا تھے ۔

وہ خود کو کبھی کبھار ہی کسی اسمبلی میں پہنچے لیکن وہ اس سے بدل نہ ہوتے تھے کیونکہ ان کے مقاصد کسی اسمبلی نشست سے کہیں بڑے تھے چنانچہ وہ منتخب اور غیر منتخب سبھی قائدین کو کسی مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع کر کے کام شروع کر دیتے تھے۔
نواب زادہ نصر اللہ خان کی بے طرح یادآج اس وجہ سے آئی ہے کہ حالات کی سنگینی نے قوم کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اور سیاسی بصیرت والا کوئی ایسا رہنماء بھی نظر آتا جو ان سنگین حالات سے راستہ نکالنے کی کوئی سبیل کر سکے ۔ آج تمام لیڈر حضرات اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں اور ہر ایک اپنا بائیوڈیٹا اٹھائے پھرتا ہے کہ مجھ سے زیادہ باصلاحیت اور وفادار اور کوئی نہیں ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جس الیکشن کے ذریعے منتخب ہو کر لیڈر حضرات حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں الیکشن کمیشن کی جانب سے کسی حتمی تاریخ کے اعلان کا قوم انتظار کر رہی ہے لیکن بے چینی اس قدر ہے کہ اور انتخابات سے قبل ہی منتخب ہونے کے دعوے کیے جارہے ہیں اور اگلا حق حکمرانی جتایا جارہا ہے ۔
نواب صاحب کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس ملک میں جمہوری سیاست عملاً زندہ رہتی تو سیاست میں کئی نئے لیڈر رونماء ہوتے،جمہوریت کی بحالی کی تحریکیں نہ چلتیں، سیاسی جماعتیں نگران حکومت کے باوجود الیکشن کے انعقاد کے ا بہام کا شکار نہ ہوتیں اور کوئی نصر اللہ خان نہ پیدا ہوتا لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا اور آج ہمیں کسی نئے نصر اللہ خان کی تلاش ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button