
سید عاطف ندیم وائس آف جرمنی، پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد-پاکستان
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے مالی سال 2024-25 کے پاکستان اکنامک سروے کی روایتی پریس کانفرنس میں معیشت کی بہتری اور استحکام کے دعوے کیے، لیکن ماہرین معاشیات، اعداد و شمار اور زمینی حقائق کا تقابلی جائزہ ان دعوؤں کو احتیاط سے پرکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ اگرچہ کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے، مگر شرح نمو کی کم سطح، صنعتوں کی سست روی، برآمدات کا دباؤ، بے روزگاری، قرضوں کا بوجھ اور اخراجات میں غیر متناسب اضافہ کئی بنیادی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔
علاقائی تناظر میں کمزور شرح نمو
وزیر خزانہ نے پاکستان کی معاشی کارکردگی کو عالمی معیشت کے تناظر میں پیش کیا، تاہم اصل تقابل علاقائی ممالک کے ساتھ زیادہ موزوں ہے۔
پاکستان کی متوقع جی ڈی پی شرح نمو: 2.68 فیصد
بھارت: 6.5 فیصد
چین: 5 فیصد
سری لنکا: 5 فیصد
بنگلہ دیش: 4.2 فیصد
یہ حقیقت کہ پاکستان نے بجٹ میں مقرر کردہ 3.5 فیصد شرح نمو کو حاصل کرنے میں بھی کامیابی حاصل نہیں کی، اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ معیشت اب بھی بحران کے اثرات سے مکمل طور پر نہیں نکلی۔
صنعتی شعبہ: جزوی بحالی، مجموعی مایوسی
اکنامک سروے میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کی نمو 4.77 فیصد بتائی گئی ہے، جو Large Scale Manufacturing (LSM) کی رپورٹ شدہ منفی 1.47 فیصد کارکردگی سے تضاد رکھتی ہے۔ جولائی تا مارچ 2025 کی مدت میں صنعتی پیداوار میں یہ کمی گزشتہ برس کی منفی 0.22 فیصد سے بھی گہری ہے۔
سروے میں کچھ ذیلی صنعتوں کی جزوی بہتری جیسے ملبوسات، دواسازی اور گاڑیوں کی پیداوار کو اجاگر کیا گیا، مگر تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ وزنی اوسط (ویٹیج) میں ممکنہ رد و بدل کے ذریعے کارکردگی کو بہتر ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے — ایک عمل جس پر ماضی میں بھی تنقید ہو چکی ہے۔
افراط زر میں کمی: پالیسی کا نتیجہ یا قدرتی رجحان؟
سروے میں دعویٰ کیا گیا کہ افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے، خاص طور پر خوراک کی مہنگائی میں۔ مگر یہ کمی بڑی حد تک گندم کی قیمتوں میں زوال کے باعث ہوئی، جو آئی ایم ایف کی پالیسی شرائط کے تحت حکومتی خریداری کی بندش کا نتیجہ تھی۔ اس کے نتیجے میں کسانوں کے منافع میں کمی اور گندم کی پیداوار میں آئندہ کمی کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، جو درآمدات میں اضافے اور زرِ مبادلہ پر دباؤ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
شرح سود میں کمی: بہتری کا اشارہ یا وقتی ریلیف؟
شرح سود میں 1,100 بیسس پوائنٹس کی مجموعی کمی کو بہتری کا اشارہ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن اگر افراط زر 2 فیصد سے کم ہو جائے (جیسا کہ امریکی فیڈ کے اصول کے برخلاف) تو یہ صنعتی پہیہ چلانے کے لیے کافی نہیں۔ شرح سود میں کمی کا سبب ڈسکاؤنٹ ریٹ میں گراوٹ ہے، جو بظاہر سرمایہ کاروں کے لیے خوش آئند ہے، مگر قرضوں کے دباؤ اور مالی خسارے کے تناظر میں اس کے اثرات محتاط تجزیے کے متقاضی ہیں۔
بے روزگاری اور لیبر ڈیٹا کا فقدان
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ معاشی سروے میں روزگار اور بے روزگاری سے متعلق کوئی تازہ ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا۔ دستیاب اعداد و شمار 2020-21 کے ہیں، جو موجودہ حالات کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ لیبر مارکیٹ کے تحت صرف پالیسی اہداف، جیسے خواتین کی بااختیاری، ہنر کی ترقی، اور سبز معیشت پر بات کی گئی ہے، مگر عملی اثرات کی کوئی واضح تصویر موجود نہیں۔
مالی کھاتے پر دباؤ اور سرمایہ کا اخراج
رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں 1.6 ارب ڈالر کی خالص رقم بیرون ملک چلی گئی، جو کہ مالی کھاتہ پر دباؤ اور قرضوں کی واپسی کا نتیجہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کو آئندہ مالی سال میں نئے قرضوں کے حصول اور موجودہ قرضوں کے رول اوور کی ضرورت ہوگی، جو خودمختاری اور مالی خود انحصاری پر سوال اٹھاتا ہے۔
اخراجات میں اضافہ: ترقیاتی یا موجودہ؟
جولائی تا مارچ کے دوران کل حکومتی اخراجات 16.337 کھرب روپے تک پہنچ گئے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 19.4 فیصد کا اضافہ ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچہ سروے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ اضافہ ترقیاتی اخراجات میں ہوا، تاہم وزارتِ منصوبہ بندی کی ویب سائٹ کے مطابق اصل اجرا شدہ ترقیاتی اخراجات محض 449 ارب روپے ہیں، جب کہ منظور شدہ بجٹ 894 ارب روپے تھا — یعنی صرف 50 فیصد سے بھی کم۔
سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ فزیکل انفراسٹرکچر کو ترجیح دی گئی جبکہ تعلیم اور صحت جیسے سماجی شعبے کو نظرانداز کیا گیا۔ حالانکہ ترقی یافتہ ممالک اور چین جیسے ممالک کی کامیابی کا راز ہی اعلیٰ تعلیم اور افرادی قوت میں سرمایہ کاری رہا ہے۔
ماحولیاتی اقدامات اور بین الاقوامی معاونت
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 1.4 ارب ڈالر کی ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فیسلٹی کی منظوری، شہباز شریف حکومت کے ماحولیاتی عزم کی توثیق ضرور ہے، مگر اس کے دیرپا فوائد صرف اس صورت میں ممکن ہیں جب منصوبہ بندی مؤثر اور شفاف ہو۔
نتیجہ: دعوے، تضادات اور احتیاط
اگرچہ اکنامک سروے میں کئی مثبت نکات اجاگر کیے گئے ہیں، جیسے مالی نظم و ضبط اور افراط زر میں کمی، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو کم ترین سطح پر ہے، صنعتی شعبہ مشکلات کا شکار ہے، روزگار کی صورتحال واضح نہیں، اور مالی کھاتہ مسلسل دباؤ میں ہے۔ اگلے بجٹ میں اگر یہ مسائل حل نہ کیے گئے تو موجودہ استحکام عارضی ثابت ہو سکتا ہے۔
کاپی رائٹوائس آف جرمنی 2025