اساتذہ، والدین اور بچوں کی نگران حکومت پنجاب کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری
جب سب ملازمین کا مسئلہ ہے تو ٹیچر کیوں احتجاج کر رہے ہیں، باقی محکمے کیوں نہیں، اُسکا جواب یہ ہے کہ ساڑھے سات لاکھ فوج کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد اساتذہ کی ہے، وہ سب متاثر ہو رہے ہیں، اس لیے احتجاج کر رہے ہیں
لاہور پاکستان(سید عاطف ندیم وائس آف جرمنی):وائس آف جرمنی کے نمائندہ کو اساتذہ نے بتایا کہ جب تک گورنمنٹ ہمارے تمام مطالبات مان نہیں لیتی ہمارا احتجاج جاری رہیگا یہ بات لاہور کے گر یجوئیٹ سائینس کالج،پنجاب یو نیورسٹی،کمپر ی ہنسو ایلیمنٹری فار وومین ہائر اینڈ سیکنڈری سکول وحدت روڈ لاہور کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے بتائی کیونکہ نگران حکومت پنجاب تمام سرکاری سکولوں کو پرائیوئٹ کرنے لگی ہے اور غریبوں پر مذید بوجھ ڈالنے لگی ہے اس لئیے ہم احتجاج کر رہے ہیں کہ اسکول پرائیوئٹ نہ کئیے جائیں اور ہمارے تدریسی حقوق ادا کئے جائیں.اساتذہ نے بچوں کے والدین سے بھی التماس کی ہے کہ ہماری اس ہڑتال میں ہمارا ساتھ دیں آپ کے تعاون سے ہی ہمیں کامیابی ملنی ہے.
سب سے پہلے تو مسئلہ یہ ہے کہ ملازمین کو نوکری دیتے وقت آئین نے جو حقوق دیے تھے نگران حکومت کیطرف سے اب وہ تمام حقوق ختم کیے جا رہے ہیں.
استذہ نے کہا کہ گریڈ ایک کے سویپر سے لے کر گریڈ بیس کے افسر تک ہر بندہ نوکری کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک اپنی اصل تنخواہ سے کٹوتی کرواتا ہے کہ جب ریٹائر ہوں گا تو ریٹائرمنٹ ملے گی، جس سے اپنی بہت سی ضروریات کو پورا کر سکے لیکن اب حکومت یہ حق ختم کر رہی ہے.
ایک سرکاری ملازم اپنی آدھی زندگی تعلیم میں اور پھر ساٹھ سال تک کی عمر اپنے محکمہ کو دیتا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جب بوڑھا ہو جاؤں گا تو گورنمنٹ میرا سہارہ بنے گی، اُنکی پینشن اب ختم ہو رہی ہے.
جب سب ملازمین کا مسئلہ ہے تو ٹیچر کیوں احتجاج کر رہے ہیں، باقی محکمے کیوں نہیں، ساڑھے سات لاکھ فوج کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد اساتذہ کی ہے، وہ سب متاثر ہو رہے ہیں، اس لیے احتجاج کر رہے ہیں
جب کسی نشئی کو نشہ پورا کرنے کے لیے پیسے نہیں ملتے تو وہ گھر کی چیزیں بیچنا شروع کر دیتا ہے ایسا ہی معاہدہ سیاسی جماعتوں نے آئی ایم ایف سے کیا ہے کہ قومی اثاثہ جات اور ادارے بیچ کر ڈالر اُدھار لیں گے اور پھر لوٹ کر بیرون ملک بھاگ جائیں گے.
سرکاری سکولوں میں صرف سفید پوش لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں، جن کے پاس ضرورت سے تھوڑی سی بھی زیادہ آمدن ہوتی ہے وہ اپنے بچے مقامی پرائیویٹ اداروں میں لے جاتے ہیں اور اگر حالات اچھے ہوں تو ضلع کے بہترین پرائیویٹ اداروں میں لے جاتے ہیں جہاں کی داخلہ فیس کم از کم تیس ہزار ہوتی ہے، یہ باتیں فرضی کہانیاں نہیں ہیں.جو والدین بچوں کے لیئے آٹا نہیں خرید سکتے وہ گورنمنٹ سکولوں کے پرائیوئٹ ہونے کے بعد اتنی فیسیں کیسے بھر سکتے ہیں.جو لوگ بیس روپے سکول کی فیس نہیں دے سکتے وہ پرائیوائیٹائزیشن کے بعد اتنی مہنگی فیس کیسے ادا کرینگے.یہ جنگ استاد کی نہیں بلکہ ملک پاکستان کی ہے.
کچرا حکومت کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ سرکاری اسکولز کو بیچ دو، اُن کے انکار کے بعد ( کہ ہم عوام میں جانے کے قابل نہیں رہیں گے) جاتے جاتے اُن سے یہ قانون پاس کروایا گیا کہ نگران حکومت اپنے فرض الیکشن کروانے کے علاوہ ہر وہ کام کر سکتی ہے جس کی پہلے آئین میں اجازت نہیں تھی. نگران حکومت اپنے ٹاسک کو پورا کرتے ہوئے سرکاری اسکولز کو غیر ملکی این جی اوز کو بیچ رہی ہے، جو اپنی مرضی کی فیسیں لیں گی اور اپنی مرضی کا سلیبس پڑھائیں گی ، جہاں ایک طرف روح ایمانی کا خاتمہ اور دوسری طرف سفید پوش لوگوں کے لیے تعلیم دلوانا نہ ممکن ہو جائے گا، اس طرح کی بھیڑ بکریوں اور ان پڑھ طبقے کو بیوقوف بنانا آسان ہوگا جیسا کہ پچھلے چھہتر سال سے ہو رہا ہے.
اس پرائیوائیٹائزیشن کی وجہ سے بہت سے صوبائی دارالحکومت کے سکولوں میں پڑھائی متاثر ہو رہی ہے.