امجد عثمانیکالمز

پنجاب کے اساتذہ اور پروفیسر وارث میر کا حرف انکار!!!…امجد عثمانی

--A teacher is not a common man and a common man can not be a teacher--

کوئی پنجاب کی نگران حکومت میں”مسند نشین”جناب پروفیسر وارث میر کے "فرزند ارجمند”کو ہی جھجھوڑے کہ صوبائی دارالحکومت میں سرکاری سکولوں کے عزت مآب اساتذہ کرام پر ہاتھ اٹھا ہے۔۔۔۔۔گریبان نوچے گئے ہیں اور سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔معماران قوم کا جرم ظلم کے وہی ضابطے جن کے "حرف انکار”میں پروفیسر صاحب نے زندگی "گھائل”کر لی تھی۔۔۔۔کوئی ان کے یہ گوش گذار کرے کہ دکھ نہیں ہوتا کہ تب”ضیائی آمریت”تھی۔۔۔۔افسوس صد افسوس کہ اب انسانی حقوق کے "علم برداروں”کا مبینہ”عبوری جمہوری دور”ہے!!!عالم گیر سچائی یہ ہے کہ اساتذہ کرام کا وقار نہیں اقتدار خاک ہوتا آیا ہے۔۔۔۔۔جنرل ضیا الحق تو قصہ پارینہ ہوئے۔۔۔۔۔۔کہاں ہیں وہ” لاٹ صاحب” جنہوں نے ایک دہائی پہلے اقتدار کے زعم میں اساتذہ کرام کو deadwood یعنی "مردان فضول”قرار دیا تھا۔۔۔۔۔۔؟؟کوئی”بوسیدہ فکر” ہی اساتذہ کرام کو "شجر خزاں رسیدہ”ٹھہرا سکتا ہے!!!اساتذہ کرام تو "شجر سایہ دار”ہوتے ہیں جن پر کبھی "پت جھڑ "نہیں آتا۔۔۔۔۔۔۔جوں جوں قد آور ہوتے۔۔۔ڈھلتے جاتے اور پہلے سے زیادہ پھل دار ہوتے جاتے ہیں۔۔۔۔پیاسوں کے لیے وہ کنویں جو کبھی سوکھتے نہیں۔۔۔۔حیات بخش چشمے۔۔۔جتنا بہتے اتنا ہی پھوٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔پنجاب میں یہ دو ہزار تیرہ کی نجم سیٹھی کی نگران حکومت کے بعد شہباز شریف کا دور اقتدار تھا جبکہ پیپلز پارٹی کے مخدوم احمد محمود صوبے کے گورنر تھے۔۔۔۔اہچی سن کالج میں پرنسپل اور اساتذہ میں تنازع ہوا اور ساٹھ اساتذہ کرام کو بیروزگاری کے پروانے تھما دیے گئے۔۔۔۔تب مذکورہ گورنر صاحب نے اساتذہ کے زخموں پر نمک چھڑکا اور انہیں deadwoodکا طعنہ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔تب میں پنجاب کے موجودہ نگران وزیر اعلی جناب محسن نقوی کے اخبار میں تھا۔۔۔۔میں نے اساتذہ کے دفاع میں ایک احتجاجی کالم لکھا کہ جناب گورنر اساتذہ نہیں آپ مرد فضول ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔گروپ ایڈیٹر جناب نوید چودھری نے یہ تلخ کالم روزنامہ سٹی 42 میں حرف بہ حرف شائع کیا۔۔۔مارچ دو ہزار دو بائیس میں پنجاب میں عمران خان کے وسیم اکرم پلس کی حکومت تھی اور لندن سے "امپورٹڈ صاحب” گورنر پنجاب تھے۔۔۔۔۔۔ان دنوں ملک کے سب سے بڑے صوبے کے کالج اساتذہ نے رمضان المبارک میں اپنے حقوق کے لیے سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا دیا اور ادھر بھی پولیس نے ایسی ہی” بے ہودگی” کا مظاہرہ کیا۔۔۔۔۔پھر عثمان بزدار رہے نہ چودھری سرور اور نہ ہی وہ آئی جی پولیس۔۔۔۔۔لیکن وہ اساتذہ آج بھی اساتذہ ہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہی کالم دوبارہ من و عن پیش خدمت ہے کہ وہ مسئلہ ابھی جوں کا توں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے لکھا کہ پنجاب بھر کے قابل صد احترام کالج اساتذہ کو لاہور کی ایک گرد آلود سڑک پر "خانہ بدوشوں” کی طرح بیٹھے دیکھا تو "محل نما ایوانوں” میں بیٹھی "حکمران نامی مخلوق "سے گھن آئی……قوم کے معماروں کے ساتھ اس "توہین آمیز رویے” پر دل غمگین اور آنکھیں نم ہو گئیں…..جناب انور مسعود نے کسی ایسے ہی” منظر نامے”پر دل گرفتہ ہو کر کہا:

یہ غم کھاتا چلا جاتا ہے مجھے

مجھے اس خوف سے فرصت نہیں ہے

کہیں برکت نہ اٹھ جائے وہاں سے

جہاں استاد کی عزت نہیں ہے

گذرے کل کی بات ہے مرے کالج سیالکوٹ میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ جناب پروفیسر محبوب عارف کا فون آیا کہ پورے صوبے سے پروفیسر صاحبان سول سیکرٹریٹ کے سامنے "خاک نشین "ہیں اور آپ کے میڈیا نے بھی کوئی خاص خبر نہیں لی…….ہروفیسر صاحب کا شکوہ بجا کہ واقعی ہمارے "ذرائع ابلاغ” کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں…….محبوب عارف صاحب شکرگڑھ کالج میں ہمارے انگریزی کے استاد رہے…..اللہ والوں کی صحبت میں بیٹھنے والے خوب صورت آدمی ہیں……اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کرام کو "خاک نشین” دیکھا تو سر شرم سے جھک گیا……وہاں شرمندہ شرمندہ بیٹھے سوچنے لگا کہ کئی برس پہلے اٹلی کے ایک جج صاحب ایک پاکستانی پروفیسر کو عدالت میں دیکھ کر کھڑے ہو گئے اور چونک کر کہا تھا:
—A teacher is in court—–!!!!!
اور پھر ساری عدالت استاد کے احترام میں کھڑی ہو گئی تھی….یہ تو ایک غیر اسلامی کی کہانی تھی……اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت میں سینکڑوں کالج پروفیسر کم و بیش ایک مہینے سے "فقیروں” کی طرح بیٹھے ہیں مگر اور تو اور ریاست مدینہ کی باتیں کرنے والے” ارباب اقتدار” کا ضمیر بھی نہیں جاگا……. مان لیا کہ وزیر اعلی "سادہ سے آدمی "ہیں تو وزیر تعلیم” ممی ڈیڈی نوجوان”….برطانیہ ایسے متمدن ملک میں زندگی بتانے والے "بزرگ گورنر صاحب” ہی دھرنے میں آکر اظہار تاسف کرتے ہوئے کہتے:
—Teachers are at road—-!!!
اور پھر بھرے مجمع میں اساتذہ کرام سے معافی مانگتے اور انہیں بڑی تکریم سے گورنر ہائوس لے جاکر چائے پیش کرتے تو ان کی قدرومنزلت بڑھ جاتی…….

اشفاق احمد صاحب کا یہ واقعہ تو بچے بچے کو ازبر ہے…..وہ لکھتے ہیں میں روم میں تھا کہ میرا چالان ہو گیا…..مصروفیت کے باعث جرمانہ بروقت ادا نہ کر پایا…..مجھے عدالت پیش ہونا پڑا….جج صاحب نے تاخیر کی وجہ پوچھی….میں نے کہا پروفیسر ہوں…..کچھ ایسا مصروف رہا کہ وقت ہی نہیں ملا…..اس سے پہلے کہ میں اپنا جملہ پورا کرتا جج صاحب کرسی سے اٹھ بیٹھے اور کہا:ایک استاد اور عدالت میں…..!!!پھر وہاں موجود سب لوگ کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان کینسل کردیا……مجھے اس دن معلوم ہوا کہ اس قوم کی ترقی کا راز کیا ہے……؟؟؟؟؟ابن انشا نے بھی ٹوکیو میں ایسا ہی ایک منظر دیکھا…..وہ ایک یونیورسٹی میں کسی استاد کو ملنے گئے…..ملاقات کے اختتام پر وہ صاحب ان کو الوداع کہنے کے لیے باہر صحن تک چل پڑے…..باتیں کرتے کرتے اچانک دونوں رک گئے…اسی دوران ابن انشا نے محسوس کیا کہ ان کے پیچھے سے گذرنے والے طلبا اچھل اچھل کر جا رہے ہیں…. اجازت لینے سے پہلے ابن انشا نے اپنے میزبان سے پوچھ ہی لیا کہ طلبا کا یہ "انداز” کیا ہے؟جاپانی استاد نے بتایا کہ سورج کی وجہ سے ہمارا سایہ پیچھے پڑ رہا تھا اور کوئی طالب علم بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کے پائوں استاد کے سائے پر پڑیں….اس لیے وہ ہمارے عقب سے اچھل اچھل کر گذر رہے تھے……!!!!
کہتے ہیں جرمنی میں سب سے زیادہ تنخواہ استاد کی ہوتی ہے…..وہاں کےججوں، ڈاکٹروں اور انجنئیروں نے اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کیا تو وہاں کی چانسلر نے جواب دیا کہ آپ ان کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں جو آپ کو بناتے ہیں…..اساتذہ کی شان میں ان کا یہ جملہ ضرب المثل بن گیا:

–A teacher is not a common man and a common man can not be a teacher–

اساتذہ کے احترام کے باب میں ہماری تاریخ بھی ایک روشن باب رکھتی ہے…….اس سے زیادہ احترام کیا ہو سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ پوری زندگی اپنے استاد کے گھر کی طرف پائوں کرکے نہیں سوئے….فلک چشم نے خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹوں کو استاد کے جوتے اٹھانے پر ایک دوسرے کیساتھ جھگڑتے دیکھا ہے…..مفکر پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے شمس العلما کے خطاب کے لیے اپنے استاد گرامی قدر مولوی سید میر حسن کا نام پیش کیا تو کمیٹی نے پوچھا ان کی کوئی کتاب؟علامہ نے کہا کہ میں ان کی تصنیف ہوں…… وہی میر حسن صاحب کہ ایک دفعہ علامہ اقبال سیالکوٹ میں کسی دکان کے تختے پر بیٹھ کر حقہ پی رہے تھے……اسی دوران مولوی میر حسن ادھر سے گذرے…علامہ اقبال نیچے اترے…جھک کر سلام کیا اور ادب سے پیچھے پیچھے چل دیے…….علامہ کے ایک پائوں میں جوتا تھا اور دوسرے میں نہیں……..وہ اسی حالت میں اپنے استاد کو گھر تک چھوڑ کر آئے اور واپس آکر جوتا پہنا…….!!!
بات کہاں سے کہاں نکل گئی……کوئی المیہ سا المیہ ہے کہ ساڑھے چھ ہزار کالج اساتذہ برس ہا برس سے پے اینڈ سروس پروٹیکشن کی "بھیک” مانگ رہے ہیں مگر” اندھے بہرے نظام” میں کسی کو” سجھائی دے رہا ہے نہ سنائی”……..”پے پروٹیکشن "کا مطلب یہ ہے کہ گریڈ سترہ کے افسر کی ابتدائی بنیادی تنخواہ میں ہر سال ملنے والی انکریمنٹ شامل ہوتی ہے……مثال کے طور پر اگر بنیادی تنخواہ پندرہ ہزار اور سالانہ انکریمنٹ تین ہزار ہے تو اس افسر کی بنیادی تنخواہ پندرہ ہزار جمع تین ہزار یعنی اٹھارہ ہزار ہو جائے گی اورتمام الائونسز اٹھارہ ہزار پر ملیں گے….اگلے سال اٹھارہ ہزار جمع تین ہزار یعنی اکیس ہزار ہو جائے گی ….اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا……اسے پے پروٹیکشن کہتے ہیں…….گذشتہ شب روزنامہ مشرق کے روشن خیال گروپ ایڈیٹر جناب اشرف سہیل کے ہاں بیٹھے اساتذہ تحریک کے کنوینر جناب پروفیسر غلام مرتضی اور پروفیسر ابوالحسن نقوی” داستان غم "سناتے رنجیدہ ہو گئے……..کہنے کسے” حال دل "سنائیں کہ اس شہر بے قدراں میں کوئی "پرسان حال "ہی نہیں……انہوں نے بتایا کہ 2002اور 2005میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت کنٹریکٹ پر بھرتی لیکچررز کو سکیل سترہ کے مطابق تنخواہ نہیں دی گئی…. دور دراز کے علاقوں میں پوسٹنگ کرکے کنٹریکٹ میں لکھ دیا کہ ان کی ٹرانسفر بھی نہیں ہو سکتی…..تنگ آمد بجنگ آمد 2008میں یہ لیکچررز سڑکوں پر آگئے اور ایک سال تک احتجاج چلتا رہا….2009میں پنجاب حکومت نے پانچ سال سروس والے اساتذہ کو ریگولر کرنے کی پالیسی بنائی لیکن بیوروکریسی نے یہاں بھی "کھلواڑ” کردیا…پالیسی کے مطابق 2002 میں بھرتی اساتذہ کو 2007میں ریگولر ہونا تھا مگر انہیں 2009میں مستقل کیا گیا….. 2005والے بیچ کو 2010میں ریگولر کرکے پے پروٹیکشن دی گئی…..افسوس مگر چند سال بعد ہی پھر "مکروہ کھیل” شروع ہوگیا…..2009میں کنٹریکٹ پر بھرتی کالج اساتذہ کو 2013میں ریگولر تو کردیا گیا مگر ان کے نوٹیفیکیشن سے پے پروٹیکشن ختم کر دی گئی…..جولائی 2013میں فنانس ڈیپارٹمنٹ نے 2002اور 2005والے گروپ کی پے پروٹیکشن بھی ختم کردی جبکہ ان کو ریکوری بھی ڈال دی……ستم ظریفی دیکھیے کہ پے پروٹیکشن ختم ہونے سے گریڈ سترہ سے اٹھارہ میں ترقی پانے والے لیکچررز کی تنخواہ بڑھنے کے بجائے بیس بائیس ہزار کم ہو رہی ہے…انہوں نے بتایا کہ 2002سے 2012تک چار گروپوں میں بھرتی ہونے والے 6ہزار جبکہ کامرس ونگ کے پانچ سو اساتذہ کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک ہو رہا ہے…..وہ چاہتے ہیں کہ تمام گروپوں کو” ڈیٹ آف جوائننگ سے” پے پروٹیکشن دی جائے…کنٹریکٹ پیریڈ کو سروس کا دورانیہ تصور کیا جائے تاکہ ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی مراعات نہ مر جائیں….پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحت گریڈ 19پانے والے ایسوسی ایٹ ہروفیسرز کی کٹوتیاں بند کی ےجائیں……سول سیکرٹریٹ کے سامنے "خیمہ زن”کالج اساتذہ کے مسائل کوئی "راکٹ سائنس”نہیں کہ کسی”کوڑھ مغز” کی سمجھ میں نہ آئیں….سیدھے سادے جینوئین سے مطالبات ہیں…..نیت ٹھیک ہو تو ایک دن میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے…..جانے کے لیے تیار حکمران تو اساتذہ کی خدمت ایسی سعادت سے” محروم” جارہے ہیں……امید ہے آنے والے حکمران ان قابل قدر ٹیچرز کے گھٹنے چھو کر”یہ برکت” ضرور اپنے نام کرینگے…..!!!اب یہ "مجموعی کالم "پنجاب کے نگران حکومت اور۔ گورنر کے نام ہے۔۔۔۔سرکاری کالجوں کی طرح سکولوں کے اساتذہ کرام بھی حق بہ جانب ہیں۔۔۔۔کاش وہ بات جو عثمان بزدار۔۔۔۔پرویز الہی۔۔۔حمزہ شہباز اور چودھری سرور کی عقل میں نہیں آئی،جناب محسن نقوی اور جناب بلیغ الرحمان کے دل میں اتر جائے۔۔۔۔۔!!!!

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button