
ادارہ علم وتحقیق جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام ” قومی کانفرنس برائے تحقیق تعلیم” منعقد ہوئی
اگر بچوں کی پہچان ماں سے ہوتی ہے تو طالب علم کا علم اور تربیت اس کے استاد کا پتا دیتی ہے
آج ادارہ علم وتحقیق جامعہ پنجاب کے زیر اہتمام ” قومی کانفرنس برائے تحقیق تعلیم” منعقد ہوئی جس میں ملک بھر کی کی جامعات کے ماہر تعلیم نے خطاب کیا ‘ تعلیمی کے حوالے سے تعلیمی نظام کی زبوں حالی کا ذکر کیا’ مقررین میں ڈاکٹر اجمل سومرو’ کالم نگار نعیم مسعود ‘ ڈاکٹر رفاقت اکبر ‘ سابق ڈائریکٹر ادارہ علم و تحقیق ڈاکٹر ممتاز آختر ‘ مفتی عبد الخالق رائے پوری’ یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے وائس چانسلر ڈاکٹر عالم سعید ‘لاہور کالج کے شعبہ معاشیات کے ڈین ڈاکٹر محمد افضل ‘ نے خطاب کیا اس کانفرنس کے مہتم ڈاکٹر محمد فاروق شاہد تھے جب کہ میزبان ادارہ علم و تحقیق کے ڈاکٹر طارق چوہدری تھے۔ ڈاکٹر اکمل سومرو نے جامعات کی عالمی درجہ بلندی کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ پیش کیا’ ڈاکٹر رفاقت اکبر چوہدری صاحب نے جامعات کے گرتے ہوئے معیار تعلیم پر انتہائی فکر انگیز گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی تک کے مقالہ جات کی سرقے بازی ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بچوں کی پہچان ماں سے ہوتی ہے تو طالب علم کا علم اور تربیت اس کے استاد کا پتا دیتی ہے۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے وائس چانسلر ڈاکٹر سعید عالم نے کہا کہ دنیا اب کاغذ کی ڈگری کو نہیں دیکھ رہی ہے وہ کسی بھی کام کے مہارت ( سکل) کو دیکھ کر نوکری دے رہی ہے۔۔ سابق ڈائریکٹر ادارہ علم و تحقیق ڈاکٹر ممتاز آختر نے کہا کہ تعلیم میں سے تربیت کا فقدان ہے۔ مفتی عبد الخالق رائے پوری صاحب نے کہا کہ ہمارا نظام تعلیم غلامی کے دور کا نظام تعلیم ہے’ جس نے معاشرے کے ہر طبقے کو زوال سے ہم کنار کیا ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر ادارہ علم وتحقیق کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طارق چوہدری نے تمام مہمانوں اور شرکاء کا شکریہ ادا کیا’ اس کانفرنس کی لائق تحسین بات یہ تھی کہ یہ کانفرنس ساری کی ساری اردو میں ہوئیں’ اس کے تمام اشتہارات ‘ مقالہ جات سب اردو میں پیش ہوئے جس پر ہم اس کانفرنس کے میزبان و مہتمم ڈاکٹر طارق محمود چوہدری اور شاہد فاروق کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ ہم خود ادارہ علم و تحقیق کے طالب علم رہ چکے ہیں ایک عرصے کے بعد اپنے مادر علمی میں جانا بہت اچھا لگا’ کلاس لینے کےئے بھاگ بھاگ کر جامعہ پنجاب کی راہ داریوں پر چلنا کل کی بات لگی۔ ہم نے کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر طارق محمود ‘ ڈاکٹر رفاقت اکبر ‘ ڈاکٹر شاہد فاروق کی توجہ دلائی کہ ذریعہ تعلیم کا ذکر کئے بغیر آپ کی اس کانفرنس کے موضوعات نامکمل ہیں۔ یہاں پر ماہرین نے تعلیمی زبوں حالی کے جتنے واقعات ‘ مسائل پیش کئے ہیں ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بچے کو تعلیم غیر ملکی زبان میں دی جارہی ہے جس سے بچے کی فہم متاثر ہورہی ہے انگریزی ذریعہ تعلیم کی بدولت وہ صرف رٹا اشی سیکھتا ہے’ غور و فکر نہیں کرتا یہی رٹہ بازی جامعات کے مقالا جات ‘ ریسرچ میں سرقے بازی بن جاتی ہے۔ جیسے یہاں پر ایک مقرر نے کہا یونیورسٹی کی تعلیم میں بچوں کی منطقی سوچ ( لوجیکل تھنکنگ) نہیں پیدا ہورہی ہے۔ صرف انکریمنٹ کے چکر میں پانچ ہزار روپے میں تھیسس لکھوا لیا جاتا ہے! انگریزی ذریعہ تعلیم سے پاکستان کے کس شعبے میں ترقی ہوئی ہے؟ ڈاکٹر رفاقت اکبر انکساری سے کہا کہ ہم نفاذ اردو پر آپ کو الگ سے بھی سنین گے’ ڈاکٹر طارق چوہدری ‘ کمال گل صاحب نے بھی وعدہ کیا کہ وہ نفاذ اردو پر ایک الگ سے نشست رکھیں گے ۔ تقریب میں نمل یونیورسٹی کے پروفیسر عدنان ‘ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر محمد رفیق سے بھی ملاقات ہوئی انہوں نے بھی نفاذ اردو مشن کو بہت سراہا کہ انگریزی غلامی کے خاتمے کے لئے ایسی ہمہ گیر تحریک کی بہت ضرورت ہے ۔ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ادارہ علم و تحقیق کے طالب علم رہے ہیں ہم جامعہ پنجاب کے عظیم اساتذہ ہی سے غلامی کے خلاف آواز بلند کرنا سیکھا ہے یہ ان کا دیا ہوا شعور ہے جو آج ہم نفاذ اردو کا علم اٹھائے ہوئے ہیں اس لئے جامعہ پنجاب کو پاکستان قومی زبان تحریک کے مشن کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے!