آپامنزہ جاویدکالمز

مقصد حیات….منزہ جاوید

کسی ضرورت مند کی چپکے سے ضرورت پوری کر کہ کسی کے دکھی دل کو محبت کے بول بول کر تسلی دینے سے کسی سچے کا ساتھ دیے کر کسی مظلوم کا ساتھ دیے کر.

یہ زندگی کیا ہے کیوں ہے. کبھی سوچیں تو ہم عجیب سی الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں
اس الجھن کو سلجھانے کے لیے ہمیں زندگی کو سمجھنا پڑے گا. زندگی ہمیں ملی کہ ہم کچھ آخرت کے لیے سامان اکٹھا کر سکیں کچھ خرید فروخت کر سکیں اور خریدوفروخت بھی کیا کہ پس اچھے یا برے اعمال جمع کرنے ہیں. اور فروخت کیا ہے؟ وہ بھی اپنے ہی اعمال ہیں.
آخرت کا اور دنیا کا کاروبار اعمال ہی تو ہیں. کوئی بھلائی کر کہ اچھائیاں جمع کرتا ہے بھوکے کو کھانا کھلا کر
کسی ضرورت مند کی چپکے سے ضرورت پوری کر کہ کسی کے دکھی دل کو محبت کے بول بول کر تسلی دینے سے کسی سچے کا ساتھ دیے کر کسی مظلوم کا ساتھ دیے کر.
گو کہ ان میں سے بہت سے عمل مشکل بھی ہیں. جیسے حق سچ کا ساتھ دینا. کسی مظلوم کے کے لیے وقت کے فرعون کے سامنے ڈٹ جانا. یہ کوئ معمولی کام نہیں یہ ایک طرح کا جہاد ہے اور جہاد کرتے شہید ہونا تو بہت عظمت والی موت ہے.
لیکن ڈر خوف دنیا کا لالچ اپنے فائدے ہمارے زبان پے تالے لگا دیتے ہیں ہمارے مفاد ہمارے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں اور ہم پھر اپنے ہاتھوں سے اپنے کان خود ہی بند کر لیتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو حوصلہ دیتے کہتے ہیں ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ہم تو مجبور ہیں.
مجبوری ہماری سُستی ہماری کاہلی ہوتی ہے ہمارے اندر کا خوف ہوتا ہے اپنے دُنیاوی فائدے ہوتے ہیں اور کچھ بھی نہیں.
ہمارے اندر سے صبر شُکر. صلہ رحمی تقریباً ختم ہو چکا ہے. ہم تماش بین بن چکے ہیں. ہمیں بھوکے کی بھوک اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک وہ بھوک سے مر نہ جاۓ. ہمیں سفید پوش کی ضرورت اس وقت تک نظر نہیں آتی جب تک اس کا ہاتھ مانگنے کے لیے ہمارے آگے نہ بڑھے. ہمارے احساس کی آنکھوں کی بنیائ اس قدر کمزور ہو چکی ہے کہ ہمیں تو اپنے رشتے داروں اپنے ہمساۓ اپنی گلی محلے میں کوئ ضرورت مند نظر ہی نہیں آتا اور ہم اتنے سخت دل ہیں کہ اگر کوئ مجبوراً بےبس ہو کر ہاتھ پھیلا ہی دیے تو ہم اس سے دوبارہ ملنے سے کتراتے ہیں ہمیں اس سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہیں ہم اس سے سلام دعا لینے سے گریز کرنے لگتے ہیں جیسے وہ کوئ ایسی کسی چھوت کی بیماری میں مبتلا ہے کہ آپ کے چھونے سے ہم میں منتقل ہو جاۓ گی.
ہمیں تو ایک دوسرے کی خوشیاں بھی زہر کی طرح لگتی ہیں ہم چاہتے ہیں پس ساری خوشیاں ہمارا ہی مقدر رہیں باقی سب نیچ کمتر غلام بن کر ہماری خوشیوں میں ناچنے گانے آئیں اور جب ہم میں سے کوئ خدا نخواستہ مر جائے تو رونے کے لیے یہ لوگ دوڑتے ہوۓ آئیں کیونکہ آپ نے اُن پر احسان کیا ہوا ہے ان کی کیا مجال جو آپ کی خوشی میں بھانڈ نہ بنیں یا آپ کے گھر کے مرگ میں بین نہ کریں.
ہم تو احسان کے بدلے جی حضوری اور غلامی چاہتے ہیں اور حد تو یہ کہ پھر ہم اپنے آپ کو سخی کہتے ہیں…
ہمیں لگتا ہے کسی کی مدد کر کہ جتنی چاہے ہم اس کی تزیل کر سکتے ہیں. اس پر اپنا رعب دبدبہ قائم رکھ سکتے ہیں. ہم اپنے آپ کو اس کا آقا تصور کرتے ہیں اور اس عمل پر ہمیں رتی بھر شرمندگی نہیں ہوتی .
ہمدردی ہمیں صلہ رحمی سکھاتی ہے اور صلہ رحمی ہمیں نرم دل بناتی ہے جب تک ہمارے دل نرم نہ ہوں گے ہماری آنکھوں پے غرور اور تکبر کے پردے چھاۓ رہیں گے ہم آخرت میں نفع حاصل نہیں کر سکتے. یہ غرور اور تکبر ہماری ساری نیکیاں کھا جاتا ہے. ہمیں اگر اپنا بھلا چاہیے اور اپنا دنیا اور آخرت کا فائدہ چاہیے تو ہمیں اپنے اندر کے غروراور تکبر کے بت کو توڑنا ہو گا یہ بت ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا ہم نیکی کرکہ بھی وہی کہ وہی رہیں گے آگ کے نزدیک…
کیونکہ غرور اور تکبر کے گھوڑے کتنے بھی دور لیں منزل تک نہیں پہنچتے فاصلے طے نہیں کرتے بلکہ ایک مدار میں گھومتے رہتے ہیں تو اپنے آپ کو اس گھوڑے سے اتاریں پیدل چلیں خود کو
اپنی نیکوں کے پر لگائیں پھر دیکھیں آپ کی آخرت کی منزلیوں کو کیسے اونچائی نصیب ہوتی ہے خدمت خلق ‘ہمدردی’ محبت ‘احترام یہ کامیابی کی
سیڑھیوں کے نام ہیں جب آپ سچے دل سے خلوص سے بغیر دکھاؤے کے کسی کی مدد کرتے ہیں تو آپ اپنی منزل کی سیڑھی پر اپنے قدم جما لیتے ہیں. آپ نے کئی مرتبہ پڑھا ہو گا کہ ایک عورت پیاسے کتے کو پانی پلانے پے آخرت میں مقام پا گئ. حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ جنہیں والدہ کی خدمت کے عوض آسمانوں پے اونچا مقام ملا
ہمارا اللہ بہت غفور الرحیم ہے وہ اپنے مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے ہم کتنے بھی گنہگار ہوں جیسے ہی ہم دل سے نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگتے ہیں وہ معاف کر دیتا ہے.
اب دیکھیے مہنگائ نے کس قدر زور پکڑا ہوا ہے ایک آندھی سی چل رہی ہے ہر شخص پرشان نظر آ رہا ہے تو صاحب استطاعت اپنے مال سے جو اللّہ کی عطا ہے اس میں سے (اللّہ سے اجَر پانے کی نیت سے) کسی مفلوط الحال گھرانے کا خرچہ یا ان کے بچوں کی فیس کا خرچہ اپنے ذمے لے سکتا ہے تو لے لے . دولت مند دولت سے مدد کریں اور صاحب علم کسی غریب کے بچے کو تعلیم دیے کر.
بھلائ کرنے کے کئی طریقے ہیں ہم کسی پرشان حال کو کچھ نہیں دیے سکتے تو ہم اسے میٹھے بول بول کر حوصلہ دیے سکتے ہیں اگر کوئ آپ سے کوئ مشورہ مانگے تو بہترین مشورہ دیں اگر کوئ بیمار ہے تو اس کی خیریت پوچھنے ضرور جائیں اگر ہو سکے تو بیمار کی جتنی ہو سکے مالی مدد بھی کیجیئے. اگر کسی کی بچی کی شادی ہے تو لازمی اس میں حصہ ڈالیں اللّہ کو راضی کرنا کوئ مشکل کام نہیں وہ تو ہماری چھوٹی چھوٹی نیکی سے بھی ہمارے گناہ معاف دیتا ہے. کوئ بھی نیکی کریں تو کوشش کیجیئے جس پر نیکی کی ہے اس سے صلہ کی اُمید نہ رکھیں. پس خالصتًا اللّہ کی رضا اللّہ کی خوشنودی کو اپنا مقصد بنالیں تو پھر سکون ہی سکون ہے نہ کسی سے گلہ نہ شکوہ.
دلی سکون کا بہترین طریقہ شُکر ہے. کسی نے آپ کو محفل میں جگہ دی تو اس کا شُکریہ ادا کیجیئے کسی نے آپ کو کسی مسئلے کا حل بتایا تو اس کا شُکریہ ادا کیجئے اس طرح آپ کے اندر احساس بیدار رہے گا کہ کسی نے آپ کی مدد کی ہے احسان کو یاد رکھا کریں. اس طرح آپ اندر بھی دوسرے پر احسان کرنے کا جزبہ اُبھرے گا یہ جزبے ‘بھلائیاں’ بیچ ہیں جو ہمارے دلوں کی زمین میں بیجے جاتے ہیں ہم جو بیج اپنے دل و دماغ میں بوتے ہیں اپنی سوچ کی شکل میں اپنے عمل کی شکل میں اس کی فصل کاٹتے ہیں. اپنے اندر کی صفائی لازمی کیا کریں جب ہم اپنے اخلاق ‘کردار کی طرف توجہ نہیں دیتے تو خود رو بوٹیاں کانٹے دار جھاڑیاں ہمارے اندر اُگنا شروع ہو جاتی ہے اس لیے اپنا محاسبہ بھی ضروری ہوتا ہے
اپنے دل کی مٹی کو محبت کے پانی سے زرخیز کیا کیجیئے دوسروں کی خوشیوں میں خوش ہو کر دوسروں کی کامیابی پے خوش ہو کر اُنہیں مزید ترقی کی دُعا دیا کریں دیکھنا جب ہم ایک دوسرے کے لیے فائدہ مند ہو جائیں گے تو خوشخالی آۓ گی برکت آۓ گی رزق میں صحت میں خوشیوں میں اور زندگی میں
خوش بانٹیں تاکہ آپ کو خوشیاں میسر آ سکیں سکون بانٹیں تاکہ آپ کو سکون مل سکے یاد رکھیں انسان جو بانٹتا ہے بدلے میں وہی کچھ اسے ملتا ہے ہم سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوۓ ہیں. جب ہمیں نیکی کرنے کی دوسرے کی عیبوں پر پَردہ ڈالنے کی عادت ہو جاۓ گی تو دیکھنا معاشرہ ایک خاندان بن جاۓ گا جہاں سب کی خوشیاں سانجھی ہوں گی جہاں تک ممکن ہو
بھلا کیجیئے سب کے دلوں میں بھلائ اور نیکی کا بیج بوئیں ان کے ہمدرد بن کر اپنے اللّہ سے نیکیوں سے کاروبار کریں
یہی زندگی کا مقصد ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button