انعام الحسن کاشمیریکالمز

76واں یوم تاسیس۔۔عزم وہمت کی خون رنگ داستان(خیال ِ کشمیر)…..انعام الحسن کاشمیری

اصولی طور پر 6جون کے اعلان تقسیم ہند کے ساتھ ہی مہاراجہ کا اقتدار اور کشمیر پر اس کا اختیار ختم ہوگیا تھا۔ اب اس کے پاس آئینی، قانونی اور اخلاقی طور پر کوئی جواز باقی نہ رہ گیا تھا کہ وہ ریاست پر اپنا کوئی حق جتاتے ہوئے اس کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا

یوم تاسیس ایک ایسی بنیاد کا دن ہے، جب ایک آزاد خطہ کے حصول کے بعد عہد کیا گیا کہ باقی ماندہ حصے کے مکمل ملنے تک جدوجہد جاری رہے گی۔ چنانچہ 24اکتوبر1947ء کو جہاں آزاد ریاست جموں وکشمیر کے موجودہ آزاد خطہ بشمول گلگت وبلتستان کی بنیاد رکھی گئی، وہاں اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ ریاست کے باقی ماندہ حصہ، جس پر بھارتی فوجوں نے نام نہاد الحاق کا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد کے بہانے قبضہ جمالیا ہے، اس کے ملنے تک آزادی کی یہ تحریک جاری رہے گی۔ اصولی طور پر 6جون کے اعلان تقسیم ہند کے ساتھ ہی مہاراجہ کا اقتدار اور کشمیر پر اس کا اختیار ختم ہوگیا تھا۔ اب اس کے پاس آئینی، قانونی اور اخلاقی طور پر کوئی جواز باقی نہ رہ گیا تھا کہ وہ ریاست پر اپنا کوئی حق جتاتے ہوئے اس کے مستقبل کے بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا۔ اب ریاست کی غالب اکثریت کو یہ حق مل گیا تھا کہ وہ ازخود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتے۔ اس کے لیے کسی قسم کے ریفرنڈم، استصواب رائے یا اس طرح کا کوئی انتظام کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی بلکہ اس کے لیے قانون تقسیم ہند میں طے کردہ امور ہی کافی تھے۔ اس قانون میں واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ ریاستوں میں آبادی کی غالب اکثریت کے مطابق ہی ان کے الحاق کا فیصلہ ہوگا۔ چونکہ ریاست جموں وکشمیر کی 90فیصد کے لگ بھگ آبادی مسلمان تھی اس لیے اس کے مستقبل کا فیصلہ بھی اسی غالب اکثریت کے مطابق ہونا تھا۔ بدقسمتی سے ریڈکلف ایوارڈ میں ریاست سے متصل علاقے پٹھانکوٹ وغیرہ بھارت کے حوالے کردیے گئے جس سے بھارت کو ریاست تک براہ راست رسائی دینے کے لیے زمینی راستہ فراہم کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے یہ شوشہ بھی چھوڑ دیا کہ مہاراجہ نے الحاق کی دستاویزات پر دستخط کردیے ہیں۔ اسی کی آڑ میں بھارتی فوجیں ریاست میں داخل ہوئیں اور انھوں نے تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے مجاہدین کی یلغار کو روکنے کی بھرپور کوششیں شروع کردیں۔ ناکامی کی صورت میں بھارت یکم جنوری 1948ء کو اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جس کے نتیجے میں ریاست جموں وکشمیر میں جنگ بندی عمل میں لائی گئی۔ مجاہدین نے دریائے جہلم کے اِس طرف کے علاقے کو فتح کرنے کے بعد اپنے قبضے ہی میں رکھا جسے بعدازاں آزاد جموں وکشمیر کا نام دیا گیا۔
قریب تھا کہ مجاہدین پیش قدمی کرتے ہوئے سرینگر ائیرپورٹ پر قبضہ جماکر بھارتی فوجیوں کی لاشوں کے کشتے کے پشتے لگادیتے، بھارت معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا، جہاں جنگ بندی عمل میں لائی گئی۔ مجاہدین نے البتہ جس علاقے پر قبضہ جمالیا تھا، کمال فراست سے اس پر ایک انقلابی حکومت کے قیام کا اعلان بھی کردیا تھا۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا، تو اقوام متحدہ کی قراردادوں کا اطلاق اس خطے پر بھی ہوجاتا اور مجاہدین کو یہ علاقہ بھی چھوڑنا پڑتا لیکن انقلابی حکومت کے قیام کے بعد اب عملی طور ایسا ممکن نہ رہا تھا تاہم جن علاقوں پر بھارت کا قبضہ بدستور رہا اس کے متعلق آزاد خطہ کی حکومت، مجاہدین اور مسلمانانِ کشمیر کا دعوی اور عزم بالجزم کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا کہ استصواب رائے کے حصول اور ریاست کے باقی ماندہ حصے کی آزادی تک جدوجہد جاری رہے گی۔ اس عزم کو اب 76برس گزر چکے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس عزم صمیم میں پون صدی گزرجانے کے باوجود زرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ کمی کے بجائے جوش وخروش پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔ اب تیسری نسل قربانیوں کی نئی داستان رقم کررہی ہے۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں فوج کے بعد اب انتہاپسند ہندو بھی مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان میں اکثریت ان ہندو پنڈتوں کی ہے جنھیں 5اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ایک جامع منصوبہ کے تحت ریاست میں آباد کیاجارہاہے۔ ان بلوائیوں کو بھارتی فوج اور پولیس کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ گویا جس طرح 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارتی پنجاب سے بلوائے گئے سکھ اور انتہاپسند ہندوؤں، آرایس ایس اور بجرنگ دل کے غنڈوں کو مسلمانوں پر حملے کرنے کی کھلم کھلا چھوٹ دے رکھی تھی اور جس کے نتیجے میں 6نومبر کے روح فرسا واقعات منظر عام پر آئے جن میں اڑھائی لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہوگئے تھے، تو اب مقبوضہ ریاست کے اندر ان ہندو بلوائیوں کو بھی یہ اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے بھارتی فوج کی مدد کریں۔
بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلوانے کا علم بردار ہے، خود ہی مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کو روندنے میں بری طرح ملوث ہے۔ ہرروز معصوم شہریوں کی شہادت، مجاہدین کی تلاش میں رہائش گاہوں اور دیگر جائیدادوں کو تباہ کرنا، گھروں میں گھس کر خواتین سے زیادتی، شیرخوار بچوں اور معمر افراد پر تشدد بھارتی فوجیوں کے لیے معمول کی باتیں ہیں۔ جی 20جیسے اجلاس کا ایک ادھ سیشن کڑے فوجی پہرے میں منعقد کروادینے سے امن قائم نہیں ہوتا اور شہری آزادیوں کی پاسداری نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے تمام ترآئینی، قانونی اور اخلاقی اصولوں پر عمل درآمد لازمی ہوتاہے جس سے بھارت باغی ہے۔ لیکن اسے یہ بات نوشتہ دیوار کی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جس قوم نے 76برس تک ہار نہیں مانی، ان کے عزم میں کوئی لغزش نہیں آئی، جن کے حوصلے رتی برابر مات نہیں ہوئے، اور جن کی تیسر ی نسل بھی میدان عمل کی شاہسوار بن گئی ہے، وہ اگلے سوسال تک بھی اپنے مقصداور مشن سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ وہ قربانیوں کی داستانیں رقم کرتے رہیں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button