’ہسپتال کی حدود میں فائرنگ‘ پر ایف آئی اے کے چار افسروں کا تبادلہ
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ ان دونوں جرائم کی روک تھام کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کراچی سمیت ملک بھر میں کارروائیاں کر رہا ہے جن میں سے کچھ میں اختیارات سے تجاوز کیے جانے کے علاوہ قانونی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔
ہنڈی اور حوالہ دو ایسے معاشی جرائم ہیں جو بیرونِ ملک رقم بھیجنے یا وہاں سے آنے والی رقم وصول کرنے کے غیرقانونی ذرائع ہیں۔
روپے کی قدر میں کمی کی وجہ ان دونوں جرائم کی روک تھام کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کراچی سمیت ملک بھر میں کارروائیاں کر رہا ہے جن میں سے کچھ میں اختیارات سے تجاوز کیے جانے کے علاوہ قانونی تقاضوں کو پورا نہ کرنے کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز پر کراچی کے آغا خان ہسپتال میں ایک ایسے ہی واقعہ کے بعد ہسپتال انتظامیہ کے مبینہ دباؤ پر ایف آئی اے نے چار افسروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کرتے ہوئے ان کا تبادلہ کر دیا ہے۔
کراچی ضلع شرقی میں ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل کی ایک ٹیم نے رواں ماہ کے آغاز پر آغا خان ہسپتال کراچی کی حدود میں غیرقانونی طور پر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کو ڈیل کرنے کے بہانے ٹریپ کیا۔
ملزموں کو جب یہ شک ہوا کہ آیف آئی اے یہ کارروائی کر رہی ہے تو وہ موقع سے فرار ہو گئے۔ ایف آئی اے کی ٹیم نے ان کا تعاقب کیا اور انہیں حراست میں لینے کی کوشش کی۔
ایف آئی اے اہلکاروں کی جانب سے مبینہ طور پر ہسپتال کی حدود میں فائرنگ کی گئی جس سے ہسپتال میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ اس واقعہ کے خلاف ہسپتال انتظامیہ نے شدید احتجاج کیا۔
پیر کو ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ مجاہد اکبر کی ہدایت پر جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق ’اسسٹنٹ ڈائریکٹر رانا عظیم سرور، انسپکٹر جنید حسین، انسپکٹر راول بھٹو سمیت ٹیم کے چار اراکین کا فوری طور پر تبادلہ کرتے ہوئے اے ڈی جی ساؤتھ آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘
ایڈیشنل ڈائریکٹر عمران ریاض کے مطابق متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کی جانے والی محکمہ جاتی انکوائری میں فائرنگ کا واقعہ ثابت نہیں ہوا۔
ایس ایچ او نیو ٹاون سب انسپکٹر عقیل گجر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے واقعہ کی تفصیل بتائیں کہ ’ایف آئی اے کے کارپوریٹ کرائم سرکل کی ایک ٹیم نے نیو ٹاون تھانے میں آمد و روانگی کی انٹری کروائی اور وہ ہسپتال کے لیے روانہ ہوئے۔ کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ ہسپتال میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔ پولیس موقع پر پہنچی اور جائے وقوعہ کا جائزہ لیا۔ پولیس حکام کو یہ بتایا گیا کہ ہسپتال کی حدود میں فائرنگ ہوئی ہے۔‘
عقیل گجر نے کہا کہ ’ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے حوالہ اور ہنڈی میں ملوث مبینہ ملزم کے جائے وقوعہ سے فرار ہونے پر یہ کارروائی کی تھی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وقوعہ کے کچھ دیر بعد پولیس ہیلپ لائن 15 پر ایک کال موصول ہوئی جس میں عامر نامی ایک شخص نے پولیس کو اطلاع دی کہ اسے آغا خان ہسپتال کے قریب لوٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘
’پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر مبینہ ملزم سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ عامر نامی شخص نے گلشن اقبال کے اپارٹمنٹ میں اپنی گاڑی کھڑی کی اور رکشے میں سوار ہو کر بہادر آباد گیا اور ڈالروں کے ساتھ اپنے ساتھی کو فرار کروایا۔‘
ایس ایچ او نیو ٹاون سب انسپکٹر عقیل گجر کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے کی تھانے میں انٹری کی وجہ سے متعلقہ پولیس حکام کو یہ علم تھا کہ غیرقانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے کی ٹیم کارروائی کر رہی ہے۔ پولیس نے ایف آئی اے کی متعلقہ ٹیم کو اس معاملے کے بارے میں آگاہی فراہم کی اور ٹیم نے کارروائی کرتے ہوئے کچھ افراد کو حراست میں لے لیا۔‘
خیال رہے کہ ایف آئی اے کے افسروں کے خلاف اختیارات سے تجاوز کرنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ایسی شکایات موصول ہو چکی ہیں۔
کارروائی سے قبل کون سے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں؟
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے کسی بھی کارروائی سے قبل اپنے افسروں کے لیے کچھ قانونی شرائط عائد کی ہیں۔
کارروائی کے دوران اگر افسران کسی شخص کو ٹریپ کر کے گرفتار کرتے ہیں تو اس سے قبل قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ڈائریکٹر کراچی سرکل ہیڈ کو اس بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے اور مجسٹریٹ کی نگرانی میں کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔
ہسپتال میں کی جانے والی کارروائی میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟
اس کارروائی میں ریڈ کرنے والی ٹیم نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر کارروائی کی اور جب مبینہ ملزم کو اس بارے میں شک گزرا تو وہ وہاں سے فرار ہو گیا۔
ایف آئی اے کی ٹیم نے مبینہ ملزم کا تعاقب کرنے کی بجائے مبینہ طور پر فائرنگ کر دی جس سے ہسپتال میں موجود مریضوں، تیمارداروں اور انتظامیہ میں خوف وہراس پھیل گیا۔
آغا خان ہسپتال کے ترجمان سے اس واقعہ پر مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے اس بارے میں بات کرنے سے گریز کیا۔