میاں نواز شریف۔ نئے سفر کا آغاز(غیر سیاسی باتیں….اطہر قادرحسن)
اسی الیکشن مہم میں ان کی بدترین سیاسی مخالف محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا جبکہ میاں صاحب پر بھی حملہ کیا گیا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔ وزیر اعظم کے منصب زبردستی اتارے جانے اور ملک میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد ایک طویل عرصہ کی زبردستی جلاوطنی کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی
میاں نواز شریف بالآخر وطن واپس پہنچ چکے ہیں ان کی وطن واپسی کے متعلق جن شکوک وشبہات اور خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے انہوں نے اپنے ناقدین کی وہ چہ مگویاں اور افواہیں غلط ثابت کر دیں اور وطن واپسی کو ترجیح دی۔ میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں زبردستی جلا وطن کئے گئے تھے اور وہ کئی برس تک سعودی حکمرانوں کے مہمان رہے اور بعد ازاں کسی نہ کسی طرح لندن پہنچ گئے لیکن وطن واپسی کی تڑپ نے انہیں بے چین کئے رکھا اور ایک دلیرانہ فیصلہ کر کے وہ لندن سے اسلام آباد پہنچ گئے لیکن ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے انہیں ائر پورٹ سے ہی واپس لندن کی بجائے سعودی عرب بجھوا دیا۔ بعد ازاں وہ کس طرح وطن واپس لوٹے اور بھاگم بھاگ الیکشن میں حصہ لیا یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی الیکشن مہم میں ان کی بدترین سیاسی مخالف محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا جبکہ میاں صاحب پر بھی حملہ کیا گیا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔ وزیر اعظم کے منصب زبردستی اتارے جانے اور ملک میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد ایک طویل عرصہ کی زبردستی جلاوطنی کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ الیکشن میں عوام انہیں منتخب کر یں گے کیونکہ ملکی ترقی کے لئے ان کا وژن کئی برس گزرنے کے بعد بھی عوام کے دل ودماغ سے محو نہیں ہوا تھا لیکن محترمہ بینظیر بھٹوکی شہادت نے اقتدار کا ہما پیپلزپارٹی کے سر پر بٹھا دیا اور جناب آصف علی زرداری پاکستان کھپے کا نعرہ لگاتے ہوئے حکمران بن گئے۔ یہ شائد وقت کی ضرورت بھی تھی اور اس ضرورت کو میاں نواز شریف نے خندہ پیشانی کے ساتھ قبول بھی کر لیا تھا کیونکہ وہ الیکشن سے پہلے لندن میں محترمہ بینظیر کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط بھی کر چکے تھے جس میں ایک دوسرے کے عوامی مینڈیٹ کا احترام بنیادی شرط تھی چونکہ ماضی میں دونوں پارٹیاں اقتدار کی
۲
غلام گردشوں میں سازشوں کے تانے بانے بن کر ایک دوسرے کی حکومتیں گرا چکی تھیں اقتدار کی رسی کشی میں ان دونوں پارٹیوں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اگر وہ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کریں گے تو ان کے ساتھ پھر وہی سلوک کیا جائے گا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے کہ دونوں پارٹیوں کا کوئی بھی وزیر اعظم اقتدار کی مدت پوری نہ کر سکا تھا۔لندنی میثاق جمہوریت کی تجدید کے لئے کوہ مری میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کے درمیان ملاقات میں اعلان مری کیا گیا جسے بعد ازاں جناب آصف زرادری نے یہ کہہ کر ہوا میں اڑا دیا کہ معاہدے کوئی قرآن یا حدیث نہیں ہوتے جن میں تبدیلی نہ لائی جا سکے۔
معلوم نہیں کہ میاں صاحب وطن لوٹنے کے لئے زیادہ بے تاب تھے یا پاکستانی عوام ان کے زیادہ منتظر تھے کہ جس طرح تاریخی مینار پاکستا ن کے وسیع عریض سبزہ زار میں ان کا عوام نے استقبال کیا اس نے حقیقت میں ان کو بھی حیران کر دیا۔ ان کی آمد سے پہلے ان کی جماعت میں خوف تھا کہ معلوم نہیں عوام ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں یا انہیں مسترد کر دیتے ہیں لیکن عوام نے ان کا بھر پور استقبال کر کے ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ ان کے سیاسی مخالفین لاکھ برا کہیں لیکن اتنے بڑے مجمع کا مینار پاکستان کے سبزہ زار نے ایک مدت کے بعد نظارہ کیا ہے اور نواز لیگ کے مداحوں کے اس ہجوم سے صرف نظر سیاسی بدیانتی ہو گی۔پرویز مشرف کے مارشل لاء کے سبب نواز شریف وزیر اعظم کے عہدے سے زبردستی بیدخل کئے جانے اور زبردستی جلاوطنی سے نجات حاصل کرنے کے بعد وہ وطن واپس پہنچے تھے تو بقول قائم چاند پوری ’کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا‘کے مصداق وزیر اعظم بننے سے رہ گئے تھے لیکن اب قرائن بتا رہے ہیں کہ پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم میاں نواز شریف ہی ہوں گے۔ ان کے سیاسی مخالفین سوائے ایک آدھ پارٹی کے انہوں نے ان کی سیاسی واپسی کا خیر مقدم کیا ہے اور ان میں سے چند ایک نے تو دوسرے ہی دن ان سے ملاقات میں سیاسی میدان میں ساتھ نبھانے اور مل جل
۳
کرچلنے کی پیش کش بھی کر دی ہے۔
میاں نواز شریف کی تقریر کے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ چونکہ وہ بہت دلبرداشتہ ہیں اس لئے ان کی تقریر بھی شکوؤں سے لبریز ہو گی لیکن میاں صاحب نے اپنے ناقدین کو ایک بار پھر سر پرائز دیا ہے اور انہوں نے اپنے شکوؤں کا اظہار اسد اللہ خاں غالب اور افتخار عارف کے شعروں کی صورت میں کرنے پر ہی اکتفا کیا ہے اور انتقام نہیں بلکہ خدمت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی مدبرانہ تقریر بلکہ اسے گفتگو کہنا زیادہ مناسب ہو گا ملکی تاریخ کے بڑے عوامی اجتماع میں انہوں نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔انہوں نے ملکی ترقی کے لئے نو نکاتی ایجنڈے کا بھی اعلان کیا ہے اور ترقی کا سفر وہیں سے شروع کرنے کا ارادہ ظاہرکیا جسے وہ بطور وزیر اعظم اپنے گزشتہ دور حکومت میں چھوڑ گئے تھے البتہ انہوں نے اپنے بھائی کی سربراہی میں گزشتہ سولہ ماہی اتحادی حکومت کا براہ راست ذکر کرنے سے گریز کیا جس نے مہنگائی کر کے عوام کی چولیں ہلا دی ہیں لیکن بجلی کے بل لہرا کر انہوں نے سب کچھ کہہ بھی دیا۔
میاں نواز شریف کے لئے نہ یہ ملک نیا ہے اور نہ ہی اس کے عوام نئے ہیں یہ وہی عوام ہیں جو انہیں دوتہائی اکثریت سے منتخب کرتے آئے ہیں وہ پاکستان کے نئے سفر کی بات کر رہے ہیں ملک بچانے کی بات کر رہے ہیں ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اسے بچانے کے لئے کسی بھر پور عزم اور دانشمندانہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔چوتھی باری لینے کے لئے میاں نواز شریف کو کچھ مختلف کر کے دکھانا ہو گاجو عوام کو دکھتا نظر بھی آئے روائتی حکمرانی کا وقت اب گزر چکا ہے باشعور عوام کو مزید بے وقوف نہ بنایا جا سکتا ہے اور نہ اب وہ بننے کے لئے تیار ہیں۔ حقیقت میں معاشی محاذ پر ایک بڑے جہاد کی ضرورت ہے لیکن اس جہاد میں اولین اوربڑا حصہ اشرافیہ کو ڈالنا ہو گا عوام تو اپنا حصہ پہلے ہی آئے روز مہنگائی برداشت
۴
کر کے ڈال رہے ہیں۔کیا میاں نواز شریف اشرافیہ کو ہاتھ ڈالیں گے؟یہ سب سے بڑا سوال ہے جو عوام کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے اگر انہوں نے یہ کام کر دیا تو پھر عوام ان کی طرف لوٹ آئیں گے۔ میاں صاحب سے گزارش ہے کہ وہ تنہائی میں پاکستان کی بقاء کے لئے ورد جاری رکھیں البتہ تسبیحات کے ذریعے کسی قسم کے عملیات سے گریز کریں کیونکہ ان عملیات نے پاکستان کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچایا ہے۔