اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

محکمہ جیل خانہ جات عام قیدیوں کے لیے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی سہولت دینے جا رہا ہے

گذشتہ ہفتے آئی جی جیل خانہ جات فاروق نذیر نے لاہور ہائی کورٹ کی جیل اصلاحات سے متعلق انتظامی کمیٹی کے سربراہ جسٹس شجاعت علی خان کو رپورٹ پیش کی کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں ویڈیو لنک مکمل طور پر فنکشنل ہیں۔

لاہور پاکستان(نمائندہ وائس آف جرمنی): لاہور کی سیشن عدالت کے بخشی خانے کے گیٹ پر معمول کا رش تھا اور قیدیوں کے لیے مخصوص گاڑیاں جیلوں سے لائے قیدیوں کو اُتار رہی تھیں۔
بخشی خانے کے باہر ایسے کئی مناظر دِکھائی دیتے ہیں کہ بیرکوں میں بند قیدیوں کے رشتے دار انہیں دور سے ہاتھ ہلا کر ان کا حال احوال جان رہے ہوتے ہیں۔
حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے پنجاب کے جیل حکام کو ہدایت دی ہے کہ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے جب قیدیوں کی صرف عدالتی حاضری لگوانا مقصود ہوتا ہے تو انہیں روز عدالتوں میں لانے کے بجائے ویڈیو لنک سے ان کی حاضری لگوائی جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتی پیشی کی سہولت صرف مخصوص وقت میں دستیاب ہوتی ہے، یا تو کسی سیاستدان یا پھر کسی خطرناک ملزم کے لیے پیشی ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتی ہے۔
تاہم اب لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر محکمہ جیل خانہ جات عام قیدیوں کے لیے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی سہولت دینے جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے آئی جی جیل خانہ جات فاروق نذیر نے لاہور ہائی کورٹ کی جیل اصلاحات سے متعلق انتظامی کمیٹی کے سربراہ جسٹس شجاعت علی خان کو رپورٹ پیش کی کہ پنجاب کی تمام جیلوں میں ویڈیو لنک مکمل طور پر فنکشنل ہیں۔
کمیٹی کے سربراہ نے ہدایت کی کہ مقدمات کے ٹرائل کئی کئی مہینے شروع نہیں ہوتے اور قیدیوں کو محض حاضری کے لیے عدالت لانا وسائل کا ضیاع ہے۔
پاکستان کے قانون کے مطابق ٹرائل کے دوران ملزمان کا عدالت کے اندر حاضر ہونا ضروری ہے تاہم ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ایسی قدغن نہیں ہے۔
بخشی خانے کے باہر کھڑی فاطمہ بی بی سے جب پوچھا گیا کہ اب ان کے بیٹے کو ویڈیو کے ذریعے پیش کیا جائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’جیل میں ملاقات مشکل ہوتی ہے۔ ادھر عدالت میں پھر بھی کافی وقت مل جاتا ہے اگر حکومت صرف یہ کر دے کہ یہاں ملاقات کے لیے جو مشکلات آتی ہیں وہ کم ہو جائیں تو ویڈیو کے بجائے عدالتوں میں ہی پیش کیا جائے تو اچھا ہے۔‘
ایک شہری محمد کلیم کا کہنا تھا کہ ’اچھا ہی ہے کہ ویڈیو سے پیش کر دیں یہاں بھی رشوت دے کر ملنا پڑتا ہے۔ ہم تو صرف خیر خیریت جاننے کے لیے آتے ہیں۔ عدالت میں سکرین لگی ہو گی وہاں نظر تو آ جائے گا کہ ہمارا بچہ ٹھیک ہے۔‘
بخشی خانے کے دروازے پر بڑے حروف میں لکھا ہے کہ ملزمان سے ملاقاتوں کی اجازت نہیں پھر بھی لوگ اس امید پر وہاں کھڑے رہتے ہیں کہ اس سے انہیں ان کی قربت کا احساس رہتا ہے۔
ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل پنجاب خرم خان نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا قانون ویڈیو لنک کے حوالے سے محدود سکوپ رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ کسی بھی قیدی کا ٹرائل شروع ہونے سے پہلے کے وقت پر لاگو ہو گا۔ جب ٹرائل شروع ہو گا تو ہر صورت میں اس کی عدالت میں جسمانی طور پر موجودگی ہونا ضروری ہے۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ ’جیلوں میں قیدیوں کی تعداد زیادہ ہے اور انہیں لانا لے جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اس انتظامی فیصلے سے کسی حد تک ریلیف ملے گا۔ جن قیدیوں کے ٹرائل ابھی تک شروع نہیں ہوئے ان کی حاضری اب جیل کے ویڈیو لنک سے عدالت میں براہ راست لگ جائے گی۔‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button