
وعدہ معاف گواہ۔۔۔امجد عثمانی
وعدہ معاف گواہ،بدعہد "کوفہ مزاج"لوگ ہوتے ہیں جو آخرکار خود بھی تاریخ کے "راکھ دان" میں"گل" ہو جاتے ہیں...۔۔اسی انداز میں جیسے "تمباکو نوش"ٹانگ پر ٹانگ دھرے "کش" لگاتے اور پھر انگلی کے نخرے سے "راکھ" جھاڑتے ہیں۔۔۔
کوئی نصیحت چاہے تو باب العلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اپنے گورنر کے نام خط”حرف حرف نصیحت” ہے۔۔۔۔…
"گرتی ہوئی دیوارکو ایک دھکا اور دو "کا نعرہ بھی بھلا کوئی "معرکہ” ہوتا ہے؟؟؟برے دنوں میں کسی کے نام نہاد "نکتہ چیں” اس لیے معتبر نہیں ہوتے کہ وہ اچھے دنوں میں اسی دسترخوان کے "خوشہ چیں”ہواکرتے تھے۔۔۔ہر زمانے کی گواہی یہ ہے کہ اپنے خیر خواہ کے بد خواہ رو سیاہ ٹھہرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہاں "بھرا میلہ”چھوڑنے والوں کی بات اور ہے۔۔۔۔یہ وہ "وضع دار” لوگ ہوتے ہیں جو بات کرتے ہیں تو سجتے بھی ہیں۔۔۔۔وعدہ معاف گواہ،بدعہد "کوفہ مزاج”لوگ ہوتے ہیں جو آخرکار خود بھی تاریخ کے "راکھ دان” میں”گل” ہو جاتے ہیں…۔۔اسی انداز میں جیسے "تمباکو نوش”ٹانگ پر ٹانگ دھرے "کش” لگاتے اور پھر انگلی کے نخرے سے "راکھ” جھاڑتے ہیں۔۔۔….۔۔اقتدار ہو یا دولت۔۔۔۔۔۔”طاقت”کا بڑا المیہ یہ ہے کہ برے وقت کے مخلص لوگ دور اور اچھے وقت کی "کوکھ” سے جنم لینے والے "خودغرض”قریب ہو جاتے ہیں۔۔۔۔عروج میں "طلوع” ہونے والے یہ”نو مولودیے” زوال کی کہانی شروع ہوتے ہی "غروب” ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔یہ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اندھیرے میں دو قدم چلیں تو "ڈگمگا”جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔یہ "ماہی آب” ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔پانی بغیر ایک لمحہ جینا پڑے تو "تڑپ”جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن المیہ یہ ہے کہ یہی "ابن الوقت لوگ” صاحب منصب لوگوں کی زندگی کی "رونق” ہوتے ہیں………..۔۔۔صاحب عہدہ لوگوں کا ایک المیہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں احترام نہیں "خو شامد” بھاتی ہے اور "ابن الوقت لوگوں”کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ "خوشامدی” ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔مکرر عرض ہے کہ صحبتیں "مزاج” بدل دیتی ہیں…….پیر کامل سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں” صحبت کے آداب” میں لکھا ہے کہ جس مجلس یا محفل میں انسان ہوگا اس کے عادات و افعال جذب کر لیتا ہے….وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی اس کی طبیعت پر غالب آ جاتا ہے….طبیعت پر صحبت کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے…. آدمی فیض صحبت سے عالم ہو جاتا ہے….طوطا تعلیم سے آدمی کی طرح بولنا سیکھ لیتا ہے….گھوڑا محنت سے حیوانیت کی عادت چھوڑ کر انسانی عادات اختیار کر لیتا ہے…..
لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی "سیرت چئیر”کے نیک نام سربراہ سے پوچھا استاد گرامی قدر!کچھ اپنے شعبے کا حال بھی کہیے……انہوں نے آہ بھری اور کہا کچھ نہ پوچھیے ادھر بھی "برا حال” ہے….اور تو اور دینی مدارس کے اچھے بھلے "با شرع” طلبا آتے ہیں …..دیکھتے ہی دیکھتے "دنیا کے رنگوں”میں ایسے رنگ جاتے ہیں کہ عمامے اتار دیتے اور "فرنچ کٹ”ہو جاتے ہیں…..
فارسی کا مقولہ اور کیا ہی خوب مقولہ ہےکہ پسر نوح بابدنداں بہ نشست ،خاندان نبوتش گم شد……..کارخانہ قدرت میں تدبیر اور تقدیر کی "آنکھ مچولی”ازل سے چل رہی ہے۔۔۔۔”قسام اول”کی تقسیم کے انداز بڑے نرالے ہیں…اتنے انوکھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے……بعض اوقات جو سوچا بھی نہیں ہوتا وہ عطا ہو جاتا ہے….یہی وہ "ڈیزائن آف نیچر” ہے جسے قسمت یا مقدر کہتے ہیں…..قدرت کے وہ "کرشمے” جن پر دانشور بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ المیہ یہ ہے کہ ایسی عطائوں کو بھی ہم اپنی خطائوں سے داغدار کرکے پوچھتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟؟اس سے سنگین جرم کیا ہو سکتا ہے انسان خدا کے کرم کو اپنا کمال سمجھ کر "خدائی لہجہ” اپنا لے….یہی ریڈ لائن ہے….یہی زوال کا نقطہ آغاز ہے….
برا ہو بری صحبت کا کہ یہ ایک طرح کی” سلو پوائزننگ” ہوتی ہے………لیکن شکوہ کس سے ہو کہ یہ لوگ ہمارا اپنا "انتخاب” ہوتے ہیں۔۔۔۔۔کاش ہم وہ "بنیاد” نہ چھوڑیں جس بنیاد پر ہمیں عزت ملی ہوتی ہے۔۔۔۔عمران خان کے تین وزرائے اعلی پرویز خٹک۔۔۔۔محمود خان اور عثمان بزدار کو چھوڑیں کہ ایسے "سستے لوگوں” سے تو یہی "توقع”ہوتی ہے۔۔۔۔یہاں تو برے وقت میں لوگ بھٹو ایسے قد آور سیاسی لیڈر کو بھی دغا گئے۔۔۔۔نواز شریف اور بے نظیر کو چھوڑ گئے۔۔۔۔۔خان صاحب تو پھر محض”ایک بلے باز” ہیں۔۔..۔۔ابن الوقت لوگ بھی کتنے "بے ضمیر” ہوتے ہیں اس کا اندازہ میرے اس مشاہدے سے لگا لیجیے۔۔۔۔۔مجھے دسمبر کی وہ یخ بستہ رات نہیں بھولتی جب میرے عزیز ترین دوست حافظ ظہیر اعوان نے اپنی گرم چادر اتار کر سردی میں ٹھٹھرتے اپنے ایک "مبینہ دوست” کو پہنا دی۔۔۔۔وہ منچلے آدمی تھے۔۔۔۔اکثر ایسی "حرکتیں” کرتے رہتے تھے۔۔۔۔۔۔جواں سال حافظ صاحب کا جنازہ اٹھا تو ایک دنیا ان کی میت کو کندھا دینے آئی لیکن یہ نام” نہاد دوست” غائب تھے۔۔۔۔۔سنگدلی دیکھیے کہ یہ "صاحب” ان کے بوڑھے والد کو پرسہ دینے بھی نہ گئے۔۔۔۔۔حافظ ظہیر کی ماس کمیونیکشن کی طالبہ بھانجی نے ایک دن رلا دینے والا سوال پوچھا۔۔۔۔۔۔۔کہنے لگیں انکل۔۔۔۔۔ماموں کے "باقی دوست” کہاں ہوتے ہیں؟؟؟میں نے کہا بیٹا یہاں تو لوگ زندگی میں کسی "دوست” نہیں ہوتے۔۔۔۔آپ موت کے بعد دوستوں کو ڈھونڈ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!
جناب عثمان بزدار کا ذکر چلا تو ان کی بھی سن لیجیے کہ کیسے وہ چند دن میں ہی سب "قول اقرار” بھول گئے۔۔.۔میرے سامنے تیس اگست دو ہزار اٹھارہ کو "نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب” کی جانب سے جاری کردہ ہینڈ آئوٹ نمبر1406پڑا ہے……لاہور پریس کلب کے اس وقت کے صدر کی سربراہی میں صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعلی عثمان بزدار نے فرمایا کہ جب تونسہ سے چلا تو دو جوڑے لے کر آیا….دو جوڑوں میں ہی واپس جائوں گا……یہ پرکشش جملہ ڈائیلاگ ہی نکلا…..بزدار صاحب سیاست کی چکاچوند میں چندھیا گئے…..وہ "احسن جمیل”لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے……ان کا انداز زندگی بدل گیا…….کہتے ہیں ناں جیسا دیس ویسا بھیس…. انہوں نے تونسہ والے” دو نایاب جوڑے”تونسہ والے صندوق میں رکھ دیے اور روزانہ "نئی شلوار قمیص "کے ساتھ اسی رنگ کی "واسکٹ” پہنتا شروع کردی…..پھر انہیں "گلوریا جین” کا بھی علم ہو گیا اور وہ "کیپو چینو”کا راز بھی پا گئے……انہیں نیسلے اور نیسپاک میں فرق بھی خوب سمجھ آگیا…..یعنی بارہ کروڑ کے صوبے کے سربراہ نے "زمانہ جاہلیت "سے تہذیب و تمدن کا "سفر”اتنی سرعت سے طے کیا کہ "شریک "دیکھتے رہ گئے……عمران خان کے ایسے ہی "شریک جرم”ساتھی اب وعدہ معاف گواہ بن رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔معافی کے وعدے پر "گواہی” بدلنے والے لوگ اچھے نہیں ہوتے تو اپنے اچھے وقت میں برے وقت کے دوستوں کو بھلا دینے والے بھی تو ہرگز اچھے لوگ نہیں ہوتے۔۔۔۔ایسے طوطا چشم لوگ ہماری اپنی "بداعمالیوں” کا نتیجہ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔لاہور کی نہر پر گذرتے زمان پارک کو دیکھتا ہوں تو خدا یاد آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمینوں کا مالک نہ چاہے تو سب "چالیں” دھری کی دھری رہ جاتی ہیں….وہی بات کہ بندہ تدبیر کرتا اور تقدیر ہنستی ہے…..سب عزتوں کا مالک بھی اللہ ہے اورسب بادشاہتیں بھی اسی کی ہیں…….وہی بات جس کا "اعتراف’ پنجابی شاعر بابا نجمی نے ان الفاظ میں کیا کہ یہ مقبولیت محض اللہ کا کرم ہے…..ورنہ تو مجھ سے بھی بڑے بڑے شاعر ہیں…انہوں نے بتایا کہ ایک پنجابی ادیب شاعر کی سو کتابیں ہیں لیکن اپنے شہر کے باہر انہیں کوئی نہیں جانتا……وہی بات جو ایک ہوٹل کے مالک نے کہی اور کمال ہی کر دیا…..سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ اتنا ذائقہ ہے….کھانوں میں کیا ڈالتے ہیں…؟؟؟اس نے جواب دیا وہی جو سب ڈالتے ہیں…..میرا کوئی کمال نہیں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ میری "ترکیبوں” کو "ذائقے” کا حسن بخش دیتا ہے……ایک اللہ والے نے کیا خوب فرمایا کہ زندگی کے ہنگاموں میں نیویں نیویں ہو کر نکل جائو……ورنہ مارے جائو گے…..سیدھا راستہ ہی عزت کا راستہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔خلیفہ چہارم جناب امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے جناب عثمان ابن حنیف کو لکھا کہ” مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ امراء کی محفلوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ مشکل وقت میں یہی لوگ سب سے پہلے چھوڑ کر جانے والے ہوتے ہیں مگر عوام ساتھ کھڑے رہتے ہیں ۔۔۔..۔اس لیے عوام سے رابطہ کمزور نہ کیجیے گا۔۔۔”
کوئی نصیحت چاہے تو باب العلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اپنے گورنر کے نام خط "حرف حرف نصیحت ہے”۔۔۔۔۔!!!کاش لوگ "نشان عبرت” بننے سے پہلے نصیحت پکڑیں۔۔۔۔۔!!!!