
اسرائیل نے غزہ جنگ بندی منصوبہ قبول کر لیا، امریکہ
صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اسرائیل کی طرف سے منظوری کے بعد ہی یہ تجویز حماس کو بھیجی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے اسرائیل کی طرف سے منظوری کے بعد ہی یہ تجویز حماس کو بھیجی ہے۔
کیرولین لیویٹ نے کہا، ’’میں اس بات کی بھی تصدیق کر سکتی ہوں کہ یہ بات چیت جاری ہے، اور ہمیں امید ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہو گی تاکہ ہم تمام یرغمالیوں کو گھر واپس لا سکیں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حماس نے یہ تجویز قبول کر لی ہے، تو ان کا جواب تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق نہیں۔
خیال رہے کہ قبل ازیں امریکہ کی جانب سے چند روز قبل پیش کی گئی غزہ میں جنگ بندی کی تجویز حماس نے منظور کرلی تھی تاہم اسرائیلی حکام نے کہا تھا کہ کوئی اسرائیلی حکومت اسے قبول نہیں کر سکتی۔

نئی تجویز میں کیا ہے؟
روئٹرز کے مطابق اس کے نمائندوں نے غزہ پٹی کے لیے امریکی سیزفائر منصوبے کی دستاویز کو دیکھا ہے۔ اس کے تحت 60 دن کی جنگ بندی کی تجویز ہے۔ اس دوران پہلے ہفتے میں 28 زندہ یا مردہ اسرائیلی یرغمالیوں کو غزہ سے لایا جائے گا اور اس کے بدلے میں اسرائیل عمر قید کی سزا پانے والے 125 فلسطینی قیدیوں کو رہا اور 180 فلسطینیوں کی جسمانی باقیات واپس کرے گا۔
اس منصوبے میں جنگ بندی معاہدے پر حماس کے دستخط ہوتے ہی غزہ کو امداد بھیجنا بھی شامل ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیلی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں کہا ہے کہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ میں رکھے گئے یرغمالیوں کے اہل خانہ کو بتایا کہ اسرائیل نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی اسٹیو وٹکوف کی طرف سے پیش کردہ ایک معاہدے کو قبول کر لیا ہے۔
نیتن یاہو کے دفتر نے فی الحال ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی۔

حماس کا ردعمل
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ اس تجویز کا مطالعہ کر رہی ہے۔ حماس کے ایک سینئر اہلکار سامی ابو زہری نے روئٹرز کو بتایا کہ یہ گروپ ابھی اس پر بات کر رہا ہے۔
ابو زہری نے تاہم کہا کہ یہ تجاویز اسرائیل کے موقف کی بازگشت ہیں اور ان میں جنگ کے خاتمے، اسرائیلی فوجیوں کو واپس بلانے یا امداد فراہم کرنے کے وعدے شامل نہیں ہیں، جیسا کہ حماس نے مطالبہ کیا ہے۔
حماس کے ایک سرکردہ عہدیدار باسم نعیم نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’یہ تجویز ان کے بنیادی مطالبات کو پورا نہیں کرتی، جن میں جنگ اور قحط کا خاتمہ شامل ہے اور وہ اس حوالے باضابطہ رد عمل آنے والے دنوں میں جاری کریں گے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکہ، قطر اور مصر کی سہولت کاری کے تحت ہونے والی سیزفائر کو ختم کرتے ہوئے اسرائیل نے 18 مارچ کو غزہ کا مکمل محاصرہ کرتے ہوئے بھرپور فوجی کارروائیوں کا دوبارہ آغاز کر دیا تھا۔
انیس مئی کو اسرائیلی فوج نے اپنی عسکری کارروائی میں توسیع کی، جس میں نیتن یاہو کے مطابق فوجیں ‘غزہ کے پورے علاقے‘ کا کنٹرول سنبھال لیں گی۔