پیر مشتاق رضویکالمز

پاکستان کا سیاسی مستقبل!!!….. پیر مشتاق رضوی

اس بات کا انحصار بھی عام انتخابات کے نتائج پر ہے انتخابات کی حوالے سے ملک بھر میں جاری سرگرمیاں میں کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آتی لیکن چند ایک سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے

پاکستان میں 2024ءالیکشن کا سال ہے اور پاکستان کی سیاسی معاشی مستقبل کا دارومدار 2024ء کے عام انتخابات پر ہے پاکستان کا سیاسی مستقبل کیسا ہوگا ؟ اس بات کا انحصار بھی عام انتخابات کے نتائج پر ہے انتخابات کی حوالے سے ملک بھر میں جاری سرگرمیاں میں کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آتی لیکن چند ایک سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے اور مختلف سیاستدان اپنے اپنے گروپوں کے حوالے سے جوڑ توڑ میں مصروف ہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی نے باقاعدہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر رکھا ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے ابھی انتخابات کے حوالے سے اپنی باقاعدہ مہم کا اغاز تو نہیں کیا ہے لیکن ملک بھر میں سیاسی دھڑوں اور الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے اور اس سلسلے پاکستان کی سیاسی صورتحال میں خاصی تبدیلی نظر آرہی ہے کہ سندھ سے ایم کیو ایم ،بلوچستان سے باپ پارٹی اور کے پی کے سے سابق وزراء اور سابق پارلیمنٹیرین کی ایک بڑی تعداد مسلم لیگ میں شامل ہو چکی ہے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد بنائے جا رہے ہیں ائندہ کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف حلقوں میں مختلف رائے کا اظہار بھی ہو رہا ہے اور مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں اس سلسلے نگران وزیراعظم پاکستان انوار الحق کا کڑ نے گزشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں ایک بار پھر دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ” پاکستان میں انتخابات شفاف اور بروقت ہوں گے "جبکہ سابق صدر آصف زرداری کی بیانیہ کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے مستقبل میں مخلوط حکومت بننےکا اشارہ دیا ہے اس کے علاوہ سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی نے بھی ایک تجویز پیش کی ہے کہ ملک میں قومی حکومت تشکیل دی جائے گی مختلف تجاویز کی باز گشت سیاسی حلقوں میں جاری ہے اسی تناظر میں دیکھا جائے تو عمران خان کی حکومت کے بعد 16 ماہ کی حکومت بنی وہ پی ڈی ایم کی تھی اور پی ڈی ایم میں تقریبا تمام سیاسی جماعتیں شامل تھیں ان 14 سیاسی جماعتوں میں جوسولہ ماہ برسر اقتدار رہیں ان میں جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف شامل نہیں تھی اس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قومی حکومت کے مترادف تھی لیکن سابق وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت ملک میں جاری سیاسی اور بدترین معاشی عدم استحکام پر قابو نہ پاسکی لیکن بقول سابق وزیراعظم شہباز شریف، انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا اور اپنی سیاست کو ملک پہ قربان کر دیا یہ بڑی حیران کن بات ہے اور سوچنے کی بات ہے کہ سیاسی حکومتیں معاشی استحکام کے لیے کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر رہیں سابقہ حکومتوں کا موازنہ کریں تو بارہا وزیر خزانہ بدلے گئے اور ماہر معاشیات جن کا بڑا نام تھا انہیں لایا گیا لیکن پھر بھی معاشی حالات پر کنٹرول حاصل نہ کیاجا سکا جبکہ مافیا اور اشرافیہ نے پاکستان کو انتہائی بے دردی سے لوٹا جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی تو یہ گمان کیا جاتا تھا کہ مافیا کو اور مزید کھلی چھوٹ مل جائے گی اور پاکستان کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو جائیں گے لیکن چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کےموثر اور آہنی اقدامات کی بدولت سمگلنگ پہ قابو پایا گیا ڈالر کی قیمت میں واضح کمی آئی اور قومی کرنسی یعنی پاکستانی روپے کو بھی استحکام نصیب ہوا ابوری حکومت نے معاشی استحکام حاصل کرنے میں قدر کامیابی حاصل کی ہے اور یہ بھی نوید سنائی جا رہی ہے کہ پاکستان میں ایک بڑی سرمایہ کاری متوقع ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے کاروباری حلقوں میں بھی ایک امید کی کرن پیدا ہو چکی ہے اور پاکستان میں معاشی زندگی کا پہیہ چل پڑا ہے جس سے قوم کو امید کا سہارا ملا ہے قومی حکومت کے تناظر میں اگر دیکھا جائے کہ اگر پاکستان میں قومی حکومت قائم کر دی جائے تو ہر پارٹی کا یا ہر سیاست دان کا اپنا مفاد ہوتا ہے وہ ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں اور معاشی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوتا ہے اس کی ایک واضح مثال ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے پارلیمنٹیرین کو 17 کھرب کے خطیر فنڈز دیے گئے لیکن بلوچستان کا حال سب کے سامنے ہے اسی طریقے سے سندھ میں اربوں اور کھربوں روپے خرچ کیے گئے لیکن وہاں عوام بدحالی کا اورپبلک ادارے خستہ حالی کا شکار ہیں اندرون سندھ میں کوئی خاصی ترقیاتی تبدیلی نظر نہیں آتی بلکہ پیپلز پارٹی کے قیادت سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے مرکز کو بلیک میل کرتی چلی آرہی ہے کراچی اور سندھ کی ابتری کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو گردانا جاتا ہے اور مبینہ کرپشن کو چھپانے کے لیے وفاق کو مورد یا الزام ٹھہرایا جاتا ہےقومی حکومت کا تجربہ پاکستان کے لیے کوئی اچھے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتا اس کے علاوہ زرداری صاحب کے مطابق مستقبل میں پاکستان میں مخلوط حکومت تشکیل پائے گی سابق صدراصف زرداری ایک منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں اور پاکستان کی سیاسی حالات پر ان کی گہری نظر رہتی ہے اور وہ پاکستان کے الیکٹیبلز کے روائتی کردار سے بھی اچھی طرح واقف ہیں ان کا مطمع نظر کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی پارٹی واضح اکثریت سے الیکشن جیت نہ پائے گی اور بڑی اکثریت والی پارٹی دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دے گی اور یوں ایک مخلوط حکومت پاکستان میں بن سکتی ہے دوسرے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ہر سیاسی جماعت حصہ بقدر جثہ اقتدار میں شراکت چاہتی ہے شاید جناب آصف زرداری یہ خیال کرتے ہوں کہ 2024ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم ملے گا کیونکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی خلاف بننے والا انتخابی اتحاد جس میں مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم جمعیت علماء اسلام فضل الرحمان گروپ اور جی ڈی اے مل کر سندھ میں انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اسی طرح سے مرکز میں پیپلز پارٹی کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کاخلاء گزشتہ دور میں تحریک انصاف نے پر کیا تھا اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے پاکستان پیپلز پارٹی سے پنجاب چھین لیا تھا مبصرین کا خیال ہے کہ ائندہ انتخابات میں پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ڑ اکثریت حاصل نہ ہوسکے گی اس بناء پر جناب آصف زرداری یہ چاہتے ہیں کہ مخلوط حکومت قائم ہونے سے پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار میں حصہ مل سکتا ہے اور سندھ کی صوبائی گورنمنٹ بدستور ان کے پاس رہ سکتی ہے جبکہ قومی حکومت کی بات کی جاتی ہے اس تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ ن اپنی انتخابی تیاریاں کر رہی ہے اور الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملا رہی ہے اس کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی اور انتخابی اتحاد قائم کر رہی ہے تو ائندہ بننے والی مسلم لیگ ن کی حکومت بھی قومی حکومت کی طرح ہو سکتی ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ تقریبا تمام سیاسی پارٹیوں کا اتحاد بننے جا رہا ہے اور اس میں ایک بڑی تعداد وہ الیکٹریبلز ہیں جو اپنی نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اس لیے ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ اس حکمت عملی کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن ایک دفعہ پھر میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنی قومی حکومت بنا سکتی ہے
یہاں یہ امر بھی قابل ہے غور ہے کہ جس طرح 2013 ءکی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کو کامیابی حاصل ملی اور میاں محمد نواز شریف وزیراعظم بنے تو تحریک انصاف نے ان کی حکومت کے خلاف دھرنے دیے اور ایک مزاحمتی سیاسی احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں 2017ء میں میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا اسی خدشے کی بنیاد پر بعض مبصرین کے نزدیک ائندہ انتخابات 2024ء میں مسلم لیگ ن کی متوقع کامیابی کے بعد پی ٹی ائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سےبھی نتائج کو قبول نہ کیا جاسکتا ہے اس طرح ایک بار پھر شدید احتجاج اور سیاسی مزاحمت کا اندیشہ موجود ہے اس بات کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج کو انصاف نے متنازعہ بنانے کی بھرپور کوشش کی 2013ء میں پاکستان تحریک انصاف کو اندرونی اور پوشیدہ ایک بڑی سپورٹ حاصل تھی اور بعض نادیدہ قوتیں عمرانی سیاست کو تقویت فراہم کر رہی تھیں جس کی بنا پر ایک طویل دھرنا دیا گیا اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو ٹف ٹائم دیا گیا لیکن میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے وجہ سے سیاسی استحکام ضرور ملا لیکن پانامہ کیس کی دو سال سے زائد عدالتی کاروائی کے بعد ایک متنازعہ فیصلے کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کو نااھل قرار دیا گیا اور ان کے بعد اقتدار میں لانے کے لئے عمران خان کی راہیں ہموار کی گئیں اور 2018ء کے الیکشن میں او بھائی نہ طور پر ار ٹی ایس کا بھٹہ بٹھا کر مکمل طور پر مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگا دیا گیااور لاڈلے عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا لیکن 2024ء کے انتخابات کے نتائج ھر ایک کو قابل قبول ہوں گے اور ملکی معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے میاں نواز شریف کی قیادت کو بھی قبول کیا جا سکتا ہے تحریک انصاف کو اگرچہ نادیدہ قوتوں کی سپورٹ حاصل نہ رہی ہے 9 جولائی کے بعد نیازی اسٹیبلشمنٹ کے پیارے نہ رہے اور وہ اپنے مہربانوں کی کردار کشی اور مخالفت کر کے اپنے سیاسی انجام سے دوچار ہیں اور یہ امر” دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے” اس طرح 2013ء کے الیکشن کے بعد سیاسی تحریک کے خدشات کوئی اھمیت نہیں رکھتے
اب اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف دیا جانے والا عدالتی فیصلہ نا انصافی پر مبنی تھا اور اس کی تلافی کے لیے میاں محمد نواز شریف کو کھلا میدان دیا جا رہا ہے جس کے حوالے سے یہ عمومی تاثر ہے کہ نگران حکومت میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے لیے سہولت کاری کر رہی ہے جبکہ تحریک انصاف کو انتخابی مہم چلانے نہیں دیا جا رہا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور دیگر مرکزی قیادت جیلوں میں ہے سینکڑوں مقدمات کا سامنا کر رہی ہے اور مکافات عمل کا شکار ہے
ائندہ 2024ء کے عام انتخابات پاکستانی قوم کے لیے ایک اچھے مستقبل کی نوید ہو سکتے ہیں اور تمام سیاسی قوتوں کو اس حقیقت کو ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ پاکستان ووٹ کی طاقت پر قائم ہوا اور پاکستان میں سیاسی استحکام ووٹ کی طاقت سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہےووٹ کے ذریعے ہی جمہوری نظام کو مضبوط کیا جا سکتا ہے اور ملک میں جمہوریت کی علمبرداری کا تسلسل بھی برقرار رکھا جا سکتا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button