جنوبی پنجاب کی سیاست اور ضلع راجن پور میں انتخابی سرگرمیاں…..پیر مشتاق رضوی
جنوبی پنجاب گزشتہ دور حکومت میں تحریک انصاف کے ساتھ رہا جب عمران نیازی کی کایا پلٹی تو تمام سیاستدان بھی تحریک انصاف سے پلٹ چکے ہیں
جنوبی پنجاب کی سیاست ملک کی سیاسی تبدیلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ یہاں کے سیاستدان خصوصا الیکٹیبلز چڑھتے سورج کے پجاری ہیں اور یہاں کے عوامی نمائندگان اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے اور اقتدار پرستی کے لیے پارٹیاں تبدیل کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے جنوبی پنجاب گزشتہ دور حکومت میں تحریک انصاف کے ساتھ رہا جب عمران نیازی کی کایا پلٹی تو تمام سیاستدان بھی تحریک انصاف سے پلٹ چکے ہیں سوائے شاہ محمود قریشی کے تقریبا تمام سابق ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں جنوبی پنجاب میں خصوصاً ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں سرداری نظام نے مقامی سیاست کو صدیوں سے اپنی پوری گرفت میں لیا ہوا ہے .
اگرچہ ملک بھر میں 8 فروری 2024ء کو ملک بھر میں عام انتخابات ہوں گے پاکستان الیکشن کمیشن نے نئی حلقہ بندیوں کا کام بھی تقریباً مکمل کر لیا ہے جنوبی پنجاب میں بھی صوبائی اور قومی نشستوں میں اضافے کے ساتھ قدرے رد بدل ہوا ہے
ملک بھر کی طرح جنوبی پنجاب میں الیکشن کی کوئی خاص گہما گہمی نظر نہیں آرہی لیکن یہاں کے وڈیرے اور سردار ائندہ عام انتخابات کے پیش نظر جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور ائندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنےکے لیے گروہ بندیاں جاری ہیں یہاں مسلط وڈیرے اور سردار اقتدار پرست پارٹیوں میں شامل ہو رہے ہیں یعنی "جیڑھاجئتے اوندے نال "ایک بار پھر الیکٹریبلز کی لاٹری نکل ائی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ الیکٹیبلز سدا بہار عوامی منتخب نمائندے ہیں اور ملک میں ہمیشہ غریب عوام پر مسلط رہنے کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے کیونکہ الیکٹیبلز سیاسی جماعتوں کی مجبوریاں ہیں اسی لیے پاکستان مسلم لیگ ن نے الیکشن میں کامیابی کے لئے اپنا سارا فوکس ان الیکٹیبلز پر کیا ہوا ہے جنوبی پنجاب کے الیکٹیبلز بھی مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کے لیے متحرک ہو چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف میں باقی ماندہ سردار پس پردہ ہیں ایک ادھا اخباری بیان کے علاوہ ان کی کوئی خاص سیاسی سرگرمی سامنے نہیں آ تی شاید وہ ملک میں جاری حالات کے حوالے سے گو مگو کا شکار ہیں اس لیے ائندہ انتخابات میں تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے انہوں نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا ہے بظاہر سرکاری مشینری الیکٹیبلز کو پروٹوکول دے رہی ہے اور تھانہ کچہریوں کے کام انہی الیکٹیبلز سرداروں کے کہنے پر کیے جا رہے ہیں ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں سرداروں کی سیاست تھانہ کچہری کے بل بوتے ہوتی ہے .
پی ڈی ایم اے کی گذشتہ حکومت کے دوران مقامی سرداروں نے اپنے مخالفین پر بڑی تعداد میں پرچے کرائے اور مبینہ اجائز مقدمات قائم کرائے ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بھی بنایا اب جب کہ الیکشن قریب ہیں کسی بھی بڑی سیاسی پارٹی کی طرف سے ضلع راجن پور میں انتخابی مہم کا تا حال باقاعدہ آغاز نہ ہوا ہے لیکن مسلم لیگ ن میں شامل سردار اپنی سیاسی برتری قائم رکھنے کے لیے اور جاگیردارنہ اجارہ داری کے لیے مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ سرکاری وسائل کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر یہ گمان کیاجا سکتا ہے کہ آ ئندہ الیکشن میں ڈیرہ ڈویژن میں مسلم لیگ ن کو بھاری اکثریت حاصل ہوگی اور ڈیرہ ڈویژن سے تحریک انصاف کا مکمل صفایا ہو جائے گا پاکستان پیپلز پارٹی کو امیدواروں کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ تمام الیکٹیبلز مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر جمع ہو چکے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی نے ابھی تک کوئی فیصلہ کن انتخابی اقدامات کیے ہیں اور نہ ہی کوئی مستقبل میں ائندہ انتخابات کے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار کیا ہے سوائے جماعت اسلامی کے جماعت اسلامی نے اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز کر رکھا ہے اس سلسلے گزشتہ روز جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی امیر حافظ سراج الحق نے ڈیرہ ڈویژن کا بھرپور دورہ کیا انہوں نے اپنے "خوشحال پاکستان کاروان” کا آغاز وہوا سے کیا اس کے بعد ڈیرہ غازی خان کوٹ چھٹہ، جام پور، محمد پور، فاضل پور، راجن پور اور کوٹ مٹھن میں انتخابی اجتماعات کیے اور اپنے امیدواروں کی انتخابی مہم چلائی مبصرین کے مطابق جماعت اسلامی کے پاس جاندار اھل امیدوار ہیں لیکن انہیں عوامی حمایت کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کا مظاہرہ گزشتہ روز حافظ سراج الحق کے راجن پور شہر کےدورے کے موقع پر سامنے آیا کہ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی قیادت راجن پور میں آئی لیکن عوامی اجتماع اس کے مطابقت نہ دکھائی دیا اس موقع پرجماعت اسلامی کے محدود لوگ اس اجتماع میں شریک تھے عوام الناس کی طرف سے کوئی خاصی دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی اس موقع پر حافظ سراج الحق نے اپنا روایتی خطاب کیا کہ پاکستان کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنے کا عزم لیکر عوام کے پاس آئے ہیں تمام جماعتوں کے لیڈروں نے ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے جماعت اسلامی امریکی طوق گلے میں نہیں باندھے گی ملک میں اسلامی نظام کے خواہش رکھتے ہیں جماعت اسلامی جاگیردارانہ اور جابرانہ نظام کے خلاف برسرپیکار ہے انہوں کہا کہ فلسطین پر ظلم اور بربریت پرحکمرانوں کی خاموشی پر دلخون کے آنسو روتا ہے امیر جماعت اسلامی حافظ سراج الحق کے دورہ جنوبی پنجاب کی اثرات انتخابی نتائج پر اثر ہو سکتے ہیں جماعت اسلامی نے ڈیرہ ڈویژن میں تقریبا ہر قومی اور صوبائی نشست پر اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے لیکن راجن پور میں صوبائی نشست 295 پر پہلے پروفیسر عبدالاحد رحمانی کا اعلان کیا گیا لیکن ان کی ناسازی طبیعت کی بنا پر ان کی جگہ پی پی 295 پر ڈاکٹر رانا ارشد لطیف کو بطور امیدوار سامنے لایا گیا ہے جماعت اسلامی کے ضلعی امیر ڈاکٹر عرفان ملک صاحب کردار اور با اثر شخصیت ہیں اور وہ اپنے اپنے حلقے میں اپنے مخالف سرداروں کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں باقی نشستوں پر جماعت اسلامی بھرپور طریقے سے الیکشن میں حصہ لے گی لیکن خوشحال کاروان پاکستان کے دوران عوام کی طرف سے عدم شمولیت اس بات کی متقاضی ہے کہ جماعت اسلامی کو الیکشن میں بھرپور نتائج حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گیا وسائل استعمال کرنے ہوں گے اور عوامی رابطہ مہم کو بڑھانا ہوگا راجن پور کی صوبائی نشست پر سابق امیدوار صوبائی اسمبلی چوہدری مسعود اختر بھی قابل ذکر ہیں اور وہ اس مرتبہ وہ دو صوبائی نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیں گے گو کہ انہوں نے گزشتہ عرصہ پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید محمد احمد سے رحیم یار خان میں ملاقات کی پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق چوھدری مسعود اختر اور ان کے صاحبزادوں کو پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کر لی لیکن باقاعدہ اعلان تاحال نہ کیا گیا ہے اور چوھدری برادران کی طرف سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہم رحیمیار خان چائے کی دعوت پر گئے تھے اور پیپلز پارٹی میں ابھی شامل نہ ہوئے ہیں تاہم پاکستان پارٹی جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل چوہدری سرور عباس ایڈوکیٹ نے اپنے جیالوں کو ہدایات کی تھی وہ چوہدری صاحب کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی مبارکباد دیں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے حوالے سے چوہدری مسعود اختر کی کنفرمیشن کے بعد صورتحال واضح ہو سکتی ہےتاھم ائندہ عام انتخابات میں صوبائی نشست پر چوہدری مسعود اختر ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے ائے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن نے ضلع بھر میں اپنے الیکٹیبلز سرداروں کی کامیابی کے لیے ایک جامع انتخابی حکمت عملی بھی تیار کر لی ہے جام پور سے پاکستان مسلم لیگ ن کے صوبائی سیکرٹری جنرل سردار اویس خان لغاری کا گروپ بھرپور کامیابی حاصل کر سکتا ہے گزشتہ ضمنی انتخابات میں این اے 196 پر اویس لغاری کو کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی اور تحریک انصاف کے سردار محسن لغاری اس الیکشن میں منتخب ہوئے تھے اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار اور ایف آئی اے کے سابق چیف سردار اختر حسن گورچانی بھی امیدوار تھے انہوں نے بیس ہزار ووٹ لیے ہیں جبکہ اس سے قبل اسی حلقے سے قبل ازیں صوبائی نشست پر پیپلز پارٹی کی امیدوار محترمہ شازیہ عابد نے 28 ہزار ووٹ لیے تھے اس طرح ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک کم ہوا تھا لیکن اب پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار اختر حسین گورچانی اپنی صفیں درست کر رہے ہیں اور نئی انتخابی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے تحصیل جام پور کے قومی حلقے سے 2013ء میں پیپلز پارٹی کے امیدوار خواجہ کلیم الدین کوریجہ نے حصہ لیا تھا اور وہ چند ہزار ووٹوں سے منتخب ہونے سے رہ گئے تھے خواجہ کلیم الدین کوریجہ پیپلز پارٹی کی قد آور شخصیت ہیں ان کا اپنا ووٹ بینک ہے اور حلقے میں ان کے مریدین و معتقدین کی ایک بڑی تعداد ہےجبکہ جام پور اور فاضل پورکی صوبائی نشستوں پر سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سردار شیر علی خان گورچانی اور ان کے والد محترم سردار پرویز خان گورچانی مضبوط ترین امیدوار ہیں اسی طرح راجن پور میں سابق ایم این اے ڈاکٹر حفیظ دریشک کا گروپ خاصہ تگڑا نظر آتا ہے صوبائی نشستوں پر بھی ان کے امیدوار اپنی یقینی کامیابی امیدیں لگائے ہوئے ہیں جن میں سردار عبدالعزیز عرف جگن خان دریشک عوامی مقبولیت رکھتے ہیں راجن پور کی پی پی 295 نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور سابق ایم پی اے سردار امان اللہ خان دریشک کے صاحبزادے اور تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے سردار فاروق امان اللہ خان دریشک بھی اس نشست پر انتخابات میں حصہ لیں گے اس نشست پر تحریک انصاف کے سابق ایم پی اے سردار اویس خان دریشک پاکستان پیپلز پارٹی کے سردار یوسف خان گبول اور بزنس ٹائیکون سردار احمد علی خان دریشک اور ان کے بھائی بھی الیکشن لڑیں گے فاضل پور کے نشست پر سردار فاروق امان اللہ دریشک نے گزشتہ دور اقتدار میں ترقیاتی منصوبے منظور کرائے اور عوام کے ساتھ مضبوط رابطے استوار کیے راجن پور کی اس نشست پر ایک ڈرامائی انتخابی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ اس نشست پر دریشک سرداروں کے مابین سخت انتخابی معرکہ ہوگا ضلع راجن پور کی سیاست میں ممتاز پارلیمنٹیرین سردار نصر اللہ خان دریشک کہ سیاسی کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جنرل مشرف کے دور میں اور عمران خان کے دور میں وہ ضلع راجن پور کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے انہوں نے اپنی روایتی سیاسی حکمت عملی کے تحت لغاری مزاری اور دریشک اتحاد قائم کیاسابق صدر سردار فاروق خان لغاری اور سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کے گروپس کو سیاست سے آؤٹ کیے رکھا سردار نصر اللہ خان دریشک ایک منجھے ہوئے سینئرسیاستدان ہیں اور ضلع کی سیاست میں جوڑ توڑ کے ماہر ہیں انتخابی حکمت عملی بنانے میں ان کا کوئی ثانی نہیں جبکہ نصراللہ دریشک گروپ نے ابھی تک تحریک انصاف کو چھوڑنے کا واضح اعلان نہ کیا ہے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ان کا گروپ سیاسی پس منظر میں چلا گیا ہے لیکن بعض مبصرین کے مطابق نصر اللہ خان دریشک پیپلز پارٹی میں جا رہے ہیں.
2018ء کے انتخابات میں سردار نصر اللہ خان دریشک صوبہ جنوبی محاذ کے علمبردار تھے اور جنوبی پنجاب علیحدہ صوبہ قائم کرنے کے حوالے سے انہوں نے اپنی انتخابی مہم چلائی اور صوبہ جنوبی پنجاب محاذ کے پلیٹ فارم پر انہوں نے جنوبی پنجاب کے تمام الیکٹیبلز کو متحد کیا انہوں نے 100دن میں پنجاب میں ایک نیا صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرنے کے لیےتحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ تحریری معاہدہ بھی کرایا لیکن عمران خان نے اپنے دور حکومت میں 100 دن کے اندر جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ کیا انے والے دنوں میں جنوبی پنجاب صوبے کا قیام صرف ایک انتخابی نعرہ ثابت ہوا اور تحریک انصاف نے اپنے دور حکومت میں نیا صوبہ بنانے کی بجائے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ قائم کیا لیکن جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبہ کا عوامی مطالبہ بدستور قائم دائم ہے تحصیل روجہان میں تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس کوئی مضبوط امیدوار دکھائی نہیں دیتا تحریک انصاف کے پنجاب میں ڈپٹی سپیکر سردار میر دوست مزاری نے عمران خان سے اختلافات کے پیش نظر اپنی سیاسی راہیں جدا کر لی تھیں انہوں نے اپوزیشن کی کھل کر حمایت کی تھی جس کی وجہ سے وہ پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں محمد شہباز شریف کے بہت قریب آگئے پی ڈی ایم اے کے 16 سالہ حکومت میں میر دوست مزاری نے تحصیل رو جہان میں ریکارڈ ترقیاتی کام کرائے بالخصوص سوئی گیس کی فراہمی ان کا ایک بڑا کریڈٹ ہے سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کے گروپ کے میر دوست مزاری روجہان میں اپنے گروپ کو مضبوط بنا چکے ہیں اور تحصیل روجھان میں بھی مسلم لیگ ن کی برتری ممکن ہے ان کے مخالف سردار عاطف مزاری مرحوم کے پسماندگان سرداران، سردار شمشیر خان مزاری کی قیادت میں مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے تھے ائندہ انتخابات میں وہ بھر پور حصہ لیں گے لیکن ابھی تک انہوں نے پارٹی ٹکٹ کے لیے کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا ہے ائندہ عام انتخابات میں یہاں کے محکوم عوام ایک بار پھر یونیورسٹی کا قیام ،داجل کینال کی توسیع ،سوئی گیس کی فراہمی،انڈس ہائی وے کی تعمیرنو اور انڈسٹریل زون کے قیام جیسے اپنے دیرینہ مطالبات امیدواروں کے پیش نظر رکھیں گے لیکن شاید ہی یہاں سے منتخب ہونے اقتدار پرست وڈیرے عوام کی خوشحالی اور علاقائی ترقی کے کوئی کردار اداکر سکیں یہاں کے غریب عوام کے مقدر کا فیصلہ انہیں ناخداؤں کے ہاتھوں میں رہے گا.