میاں محمد نواز شریف کی قبولیت اور مقبولیت ایک چیلنج…… پیر مشتاق رضوی
سابق صدر اصف علی زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلاول ابھی نہ تجربہ کار ہے اور ان کی سیاسی تربیت کی جا رہی ہے جس پر شاید بلاول زرداری بھٹو ناراض ہوئے
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو ملک کے معروضی حالات کے مطابق بیانات دیتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر پرسن بلاول زرداری بھٹو اپنی الیکشن مہم کے دوران اکثر و بیشتر مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں کہ تین مرتبہ کا وزیراعظم چوتھی بار ملک کا وزیراعظم بننے جا رہا ہے اس کے علاوہ وہ یہ بات تواتر کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیاست کے بابے اب گھر بیٹھیں اور نوجوان قیادت کو موقع دیں اسی طرح وہ الیکشن کمیشن پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں بلاول زرداری بھٹو کے بیانیوں کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے سابق صدر اصف علی زرداری ھی ان کی تنقید کی زد میں اتے ہیں کیونکہ وہ بھی سیاست کے بابے ہیں اور بلاول بھٹو زرداری کے مطابق انہیں اب گھر بیٹھنا چاہیے جبکہ سابق صدر اصف علی زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بلاول ابھی نہ تجربہ کار ہے اور ان کی سیاسی تربیت کی جا رہی ہے جس پر شاید بلاول زرداری بھٹو ناراض ہوئے اور دبئی چلے گئے تھے بعد ازں آصف زرداری بھی فورا ہی ان کے پیچھے دبئی گئے اور انہیں منا کے لائے اور کوئیٹہ میں پارٹی کے یوم تاسیس کے موقع پر انہوں نے اپنی پگ بلاول زرداری بھٹو کے سر پر رکھ کر یہ عندیہ دیا کہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کی مکمل باگ ڈور بلاول بھٹو زرداری سنبھالیں گے اس کے علاوہ آصف علی زرداری نے پاکستان الیکشن کمیشن پر بھی اعتماد کا اظہار کیا اس طرح بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری کے بیانیوں میں کھلا تضاد نظر آرہا تھا جبکہ پیپلز پارٹی کے ذرائع کے مطابق دونوں میں کوئی اختلافات نہ ہیں کیونکہ بلاول زرداری بھٹو کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھر کے معاملات میں وہ اپنے والد جناب آصف زرداری کا حکم مانتے ہیں اور پارٹی معاملات میں وہ پارلیمانی کمیٹی کے فیصلوں کے پابند ہیں مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف مسلسل بلاول بھٹو زرداری کی تنقید کے زد میں ہیں کہ محمد نواز شریف چوتھی بار وزیراعظم بنے جا رہے ہیں اور نگران حکومت ان کی سہولت کاری کر رہی ہے اسی طرح سندھ میں ترقیاتی منصوبوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن کے پی کے اور پنجاب میں ترقیاتی منصوبے بدستور جاری ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں ہے اسی طرح کے الزامات پاکستان پیپلز پارٹی پر ہیں کہ سندھ میں الیکشن کمیشن پاکستان پیپلز پارٹی کا آلہ کار بنی ہوئی ہے بلاول بھٹو زرداری تاریخ کا جائزہ تو پتہ چلتا ھےکہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دو بار وزیراعظم رہیں ان کے بعد آصف علی زرداری پانچ سال تک صدر مملکت رہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت کی مکمل سربراہی کرتے رہے اور گزشتہ چار دہائیوں سے صوبہ سندھ پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت چلی آرہی ہے اور اب بلاول بھٹو پاکستان کے وزیراعظم بننے کے خواہشمند ہیں اس کا برملا اظہار انہوں نے ایک جلسہ عام میں خود کو وزیراعظم کا امیدوار کہہ کر کیا یہی نہیں کہ بلکہ 1970ء میں پاکستان پیپلز پر پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو شہید بھی سات سال سے زائد پاکستان کے وزیراعظم، صدر اور ملک کے واحد سول مارشل ایڈمنسٹریٹر بھی رہے پاکستان کے سیاسی پس منظر اور پیش منظر میں سیاسی پارٹیوں میں موروثی سیاست کا رواج عام ہے اسی طرح میاں محمد نواز شریف اور ان کے بھائی میاں محمد شہباز شریف گاہے بگاہے صوبائی اور مرکزی حکومت کے سربراہ رہ چکے ہیں میاں محمد نواز شریف کو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ ان کے حکومت کی مدت کو مکمل نہیں کرنے دیا گیا اور تین بار ان کی حکومت کو قبل از وقت ختم کر دیا گیا اس لیے ان کی شدید خواہش ہے کہ ایک بار پھر وزیراعظم بن کر آئینی مدت پوری کریں اور ملک کی خدمت کرنے کا حق ادا کر سکیں اور وہ اپنے سابقہ ادوار میں ترقیا تی منصوبوں کا بھرپور کریڈٹ لیتے ہیں اور مسلم لیگ ن کی قیادت بھی سمجھتی ہیں کہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے نواز شریف کو ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان بنانا پڑے گا میاں محمد نواز شریف کو بظاہر ریلیف مل رہا ہے اور عدالتوں سے بھی انہیں بریت مل رہی ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا ازالہ کرنا چاہتی ہے اس سلسلے میاں محمد شہباز شریف نے اپنی 16 ماہ کی حکومت میں اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات استوار کرنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی اور وہ خود کہتے رہتے تھے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہیں کیونکہ میاں محمد شہباز شریف سیاستدان کم اور منیجر زیادہ ہیں ان میں منیجمنٹ کی خاداد صلاحیتیں ہیں جبکہ میاں محمد نواز شریف کو ان کے آخری دور حکومت میں برطرف کیا گیا تو بظاہر ایسا لگتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی پوری کوشش یہ رہی کہ میاں محمد نواز شریف کو سیاست سے مکمل طور پر آؤٹ کر دیا جائے اور میاں محمد شہباز شریف کو اگے لایا جائے جس بارے شیخ رشید اکثر کہا کرتے تھے کہ "ن سے شین نکلے گی” اس حوالے سے مسلم لیگ ن میں بھی تشویش اور تقسیم پائی جاتی تھی اور مسلم لیگ ن تقریبا تتر بتر ہو چکی تھی لیکن میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز نے مسلم لیگ ن کو سنبھالا اور اپنی بھر پور جارحانہ سیاست سے مسلم لیگ ن کو ایک بار پھر منظم کیا اور اپنے والد محترم میاں محمد نواز شریف کے سیاسی حقوق کی بحالی کے لیے بھرپور جنگ لڑی گو کہ مسلم لیگ کے بابے جن میں شاہد خاقان عباسی شامل ہیں وہ محترمہ مریم نواز کی قیادت کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے اور وہ مسلم لیگ کی پارٹی سیاست الگ ہو گئے میاں محمد شہباز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نرم وگرم تعلقات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان کی اندرون خانہ بھرپور کوشش یہی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ میاں محمد نواز شریف کو قبول کر لے اور ان کے ساتھ تعلقات بحال ہو جائیں انہوں نے سولہ ماہ کی حکومت کے دوران بڑی حد تک کامیابی حاصل کی یہ سلسلے ایک طرف ائینی ترامیم لائے دوسری طرف انہوں نے میاں نواز شریف کے لیے قانونی جدوجہد بھی جاری رکھی اور میاں محمد نواز شریف کو پاکستان میں باعزت لانے اور مقدمات سے بری کرانے میں راہیں ھموار کیں وہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے کہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے اور انہیں ایک یک طرف اور غلط فیصلے کے تحت حکومت سے نکالا گیا جبکہ عمران نیازی کو سیاست میں اقتدار میں لانے کا اسٹیبلشمنٹ کا تجربہ ناکام رہا جس سے ملک و قوم کو ناقابل تلافی معاشی نقصان پہنچا اگر اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں میں میاں محمد نواز شریف کی واقعی قبولیت ہو چکی ہے لیکن عوام میں ان کی مقبولیت ایک بہت بڑا چیلنج ہے ؟ کیونکہ پانامہ کیس میں دو سال سے زیادہ عرصہ کی طویل عدالتی کاروائی کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کو مجرم ثابت کرنے کے لیے اربوں روپے قومی خزانے سے خرچ کیے گئے اور پاکستان کے معاشی مستقبل کو داؤ پر لگایا گیا اسی طرح برطانیہ میں میاں محمد نواز شریف کی کرپشن اور ناجائز دولت کا سراغ لگانے کے لیے چار ارب روپے سے زائد ایک سراغ رساں ایجنسی کو دیے گئے اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر احتساب شہزاد اکبر بلند بانگ دعوے کرتے رہے۔ عدالتی طویل ترین کاروائی کے بعد صرف بیٹے سے تنخواہ نہ ملنے پر نواز شریف کو ناہل اور برطرف کیا گیا اس دوران سابق چیف جسٹس اف پاکستان کی طرف سے میاں نواز شریف کو سسلین مافیا قرار دیا گیا اور میاں نواز شریف کی کردار کشی کی گئ اسی طرح عمرانی دور میں تمام تر ریاستی وسائل میاں محمد نواز شریف کو قومی مجرم اور چور ثابت کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کئےگئے اس کے باوجود میاں نواز شریف کے خلاف کرپشن اور قومی وسائل لوٹنے کے کوئی ثبوت سامنے نہ لائے سکے سیاسی ہائبرڈ وار کے کے ذریعے "بد سے زیادہ بدنام برا” کے مصداق میاں نواز شریف کی بھرپور کردار کشی کی گئی میاں محمد نواز شریف میاں محمد شہباز شریف اور مسلم لیگ کی قیادت کو چور چور کہا گیا اور کہا جاتا ہے یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی ریاست کا دعوی کرنے والوں نے مدینہ منورہ میں عمرہ پر گئ ہوئی لیگی قیادت کے خلاف چور چور کے نعرے بلند کر کے مدینہ کے تقدس کو بھی پامال کیا
رائے عامہ ،ملک میں جاری منفی پروپیگنڈا ،نفرت کی سیاست اور ہائی ببرڈ کا شکار ہے اور نواز شریف کی مقبولیت ایک سوال ہے ؟ خصوصا نوجوان نسل جو عمرانی پراپگنڈا اور محترمہ مریم نواز کے بقول "عمرانی فتنہ” کے مکمل زیر اثر ہے وہ مسلم لیگ کی قیادت اور نواز شریف کو قبول کرنے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں نظر اتی
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ابھی تک میاں نواز شریف میاں شہباز شریف پر تسلسل کے ساتھ ملکی وسائل لوٹنے اور لندن میں ناجائز ذرائع سے جا ئیدادیں بنانے کا الزامات لگاتی چلی ا رہی ہے جبکہ تحریک انصاف کی اپنی قیادت عمران نیازی کے خلاف بھی سکینڈل پر سکینڈل اور مالی بدعنوانیوں کے کیسز سامنے آرہے ہیں جسے تحریک انصاف جھوٹے اور بے بنیاد قرار دیتی ہے جبکہ مختلف عدالتوں میں کیسز چل رہے ہیں اور عمران نیازی پابند سلاسل ہے اب جب کہ وہ اپنی پارٹی کے چیئرمین شپ سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور پیپلز پاکستان تحریک انصاف کا شیرازہ تقریبا بکھر چکا ہے اور ائندہ انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت تحفظات کا شکار ہے
پاکستان پیپلز پارٹی میاں نواز شریف کو ایک نیا لاڈلا قرار دے رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے شاہد خاقان عباسی بھی فیورٹ ازم کے خلاف دکھائی دیتے ہیں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کی طرف سے لیول پلینگ فیلڈ کے حوالے سے شکایت عام ہے لیگی ذرائع کے مطابق 2018ء میں پاکستان مسلم لیگ نن کو لیول پلینگ فیلڈ نہ دیا گیا اور مسلم لیگ کی قیادت کو دیوار سے لگا دیا گیا تھا اب تحریک انصاف مکافات عمل کا شکار ہے 9- جولائی کا واقعہ ان کے گلے کا پھندہ بن چکا ہے الیکٹیبلز تحریک انصاف کو چھوڑ چکے ہیں وہی الیکٹیبلز اور اتحادی جنہوں نے اکٹھے ہو کر عمران نیازی کی حکومت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اب وہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ نظر آ رہے ہیں ایم کیو ایم اور بلوچستان کی باپ پارٹی کے علاوہ مولانا فضل الرحمن؛نے مسلم لیگ ن کے ساتھ مکمل طور پر انتخابی اتحاد قائم کر لیا ہے اندرون سندھ سے جی ڈی اے اور پیپلز پارٹی کی مخالف سیاسی قوتیں بھی میاں نواز شریف کے ساتھ جمع ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو سخت اور مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کے علاوہ مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری الیکٹیبلز اوربلوچستان کی باپ پارٹی کو اپنے ساتھ ملانے کی توقعات رکھتے تھے جوکہ پوری نہ ہوئیں جناب اصف علی زرداری شاید یہ بھی سمجھتے ہوں کہ عمران نیازی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن کو اقتدار میں لائے اور انہوں نے میاں محمد شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا اور میاں محمد نواز شریف کے لیے پاکستان انے کے لیے راہیں ہموار کیں اس لیے ائندہ اقتدار میں اب انے کی ان کی باری ہے لیکن میاں محمد نواز شریف کے لیے مبینہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سازگار حالات ملنے پر اور الیکٹیبلز اور دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے اتحادی بننے کی وجہ سے آصف علی زرداری کی توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آرہی اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میاں نواز شریف کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ پاکستان کی سیاسی عمل میں اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں مکمل طور پر جمہوری کلچر رائج نہ ہے سیاسی جماعتوں کے اندر برائے نام جمہوریت ہے جس کا ایک واضح ثبوت پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ انٹر پارٹی الیکشن ہیں اس کا بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی اقتدار کے دوران کبھی بھی بلدیاتی الیکشن نہ کرائے میاں محمد نواز شریف نے ائندہ انتخابات کے پیش نظر روایتی حکمت عملی ترتیب دے رکھی ہے وہ الیکٹیبلز اور سیاسی اتحادیوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے اور لیگی قیادت کا دعویٰ ھے کہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میاں محمد نواز شریف حکومت بنائیں گے اور وزیراعظم بن کر ملک کو معاشی مشکلات سے نجات دلائیں گے کیا مسلم لیگ ن اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی عوامی مقبولیت کو بحال کر سکے گی ؟ اور حالیہ انتخابات میں میاں محمد نواز شریف کو کتنی عوامی قبولیت حاصل ہوتی ہے یہ آئندہ الیکشن کے نتائج پر منحصر ہے