
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ان دنوں قانونی جنگ میں مصروف ہے۔ اس نے تین دسمبر کو الیکشن کمیشن کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے اور پارٹی کی کمان وکلا نے سنبھال لی، لیکن اس دوران پارٹی کے بانی رکن اکبر شیر بابر سمیت 14 افراد پارٹی کی مخالفت میں سامنے آ گئے۔
انہوں نے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی کے حالیہ انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کی استدعا کی۔ الیکشن کمیشن نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو نوٹس جاری کیا اور سماعت 12 دسمبر تک ملتوی کر دی۔
اس تمام عمل کے دوران ایک سوال ابھرا کہ پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر بحران کے دنوں میں ہی کیوں پارٹی کی مخالفت پر اُتر آتے ہیں؟ ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی ان کا مرکزی کردار رہا۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا وہ پارٹی میں کسی عہدے کے خواہش مند ہیں؟ یا وہ حامی اراکین پر مشتمل نیا بلاک بنا رہے ہیں؟
ان سوالوں کے جوابات کے لیے اُردو نیوز نے اکبر ایس بابر سے گفتگو کی۔
اکبر ایس بابر کا کہنا تھا کہ جب سنہ 1996 میں یہ پارٹی وجود میں آئی تو مجھے اس وقت فاؤنڈنگ پریزیڈنٹ پی ٹی آئی بلوچستان نامزد کیا گیا۔
’پارٹی کا بنیادی آئین بناتے وقت ایڈووکیٹ حامد خان، معراج محمد خان، فوزیہ قصوری، عارف علوی اور سعید اللہ نیازی سمیت مجھے بھی کمیٹی میں شامل کیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پارٹی کے آئین میں جمہوری روایات کو ترجیح دی گئی تھی۔ ہم نے قانون بنایا کہ پارٹی کا چیئرمین صرف دو ٹرم کے لیے ہو گا اس کے بعد وہ تاحیات اس دوڑ سے باہر تصور ہو گا۔ لیکن گذشتہ کئی برسوں میں ہم نے پارٹی آئین کو پامال ہوتے دیکھا۔‘
اکبر ایس بابر کے مطابق ’پارٹی آئین کے خلاف پارٹی کی ویب سائٹ پر ایک نوٹیفکیشن پڑا ہوا ہے۔ نوٹیفیکیشن میں لکھا ہے کہ کور کمیٹی نے عمران خان کو تاحیات چیئرپرسن قرار دیا ہے تو یہ بادشاہت نہیں ہوئی؟‘