مشرق وسطیٰ

سابق اسرائیلی جنرل کامصرپرجزیرہ سیناء میں غیرمعمولی فوجی سرگرمیوں کاالزام،مگرحقیقت کیا ہے؟

جزیرہ نما سیناء میں فوجی ساز و سامان اور بنیادی ڈھانچے میں غیرمعمولی وسعت پیدا کی ہے، جو کہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

ریٹائرڈ اسرائیلی جنرل اسحاق بریگ کے حالیہ بیانات نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مصر نے جزیرہ نما سیناء میں فوجی ساز و سامان اور بنیادی ڈھانچے میں غیرمعمولی وسعت پیدا کی ہے، جو کہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

جنرل ریٹائرڈ بریگ نے اسرائیلی اخبار "معاریو” سے گفتگو میں کہا کہ اسرائیلی فوج نے گذشتہ بیس برسوں میں چھ بریگیڈز، ہزاروں ٹینک، پچاس فیصد توپ خانوں، انفنٹری بریگیڈز، انجینئرنگ یونٹس، انٹیلیجنس یونٹس اور ہزاروں مستقل فوجیوں میں کمی کی ہے۔ ان کے مطابق، اب اسرائیلی فوج کے زمینی یونٹس کا حجم بیس سال پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی رہ گیا ہے، اور موجودہ وقت میں وہ سرحد پر معمول یا جنگ کے دوران تعیناتی کی استطاعت نہیں رکھتی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مصر نے حالیہ برسوں میں ٹینکوں، توپوں، انجینئرنگ مشینری اور دیگر فوجی ساز و سامان کی ذخیرہ اندوزی کے لیے جو بنیادی ڈھانچہ تیار کیا ہے وہ 3 لاکھ مربع میٹر سے بڑھ کر 25 لاکھ مربع میٹر تک پہنچ چکا ہے۔

مصری تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

تاہم مصر کے عسکری و تزویراتی امور کے ماہر اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے مشیر میجر جنرل (ر) اسامہ محمود کبیر نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے خصوصی گفتگو میں ان دعوؤں کو بے بنیاد قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیناء میں مصری افواج کی موجودگی کا معاملہ پرانا ہے اور غزہ جنگ کے آغاز سے کئی اسرائیلی سیاسی و عسکری شخصیات اس پر تبصرے کر چکی ہیں، جن میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سابق مندوب ڈینی ڈینن بھی شامل ہیں۔

انہوں نے ان دعوؤں کو "اسٹریٹجک دیوالیہ پن” قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نوعیت کی باتیں محض عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوششیں ہیں۔ جنرل کبیر کے مطابق مصری فوج کی سیناء میں تعداد میں اضافہ تقریباً سات برس قبل دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیوں کے لیے ہوا، جو کہ بین الاقوامی مبصرین اور ملٹی نیشنل فورس (MFO) کی منظوری اور ہم آہنگی سے کیا گیا تھا۔ جب ان مشنز کا اختتام ہوا تو فورسز اپنی سابقہ پوزیشنز پر واپس آگئیں۔

جنرل بریگ کے سیناء میں سرنگوں، فوجی اڈوں اور ہوائی اڈوں کی موجودگی سے متعلق بیانات پر بھی جنرل کبیر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہر ملک کو اپنے قومی تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔

دوسری جانب قاہرہ یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ڈاکٹر اسماعیل ترکی نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے فیلاڈیلفی کوریڈور ( محور صلاح الدین) میں فوجی دراندازی کو امن معاہدے کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ فلسطینی سرزمین کا حصہ ہے اور اسرائیلی فوج کی موجودگی کسی صورت قابل قبول نہیں۔

ڈاکٹر ترکی کے مطابق مصر نے اس خلاف ورزی پر سخت ردعمل دیا اور واضح کر دیا کہ اسرائیلی موجودگی نہ صرف امن معاہدے بلکہ 2005ء میں طے پانے والے سرحدی پروٹوکول کی بھی خلاف ورزی ہے۔ مصر کا مؤقف ہے کہ کسی بھی قسم کی فوجی نقل و حرکت کو پیشگی باہمی ہم آہنگی کے تحت ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ مصر نے سیناء میں اپنی فوجی موجودگی کو خطرات کے مطابق اپنی موجودگی کو متوازن بنایا ہے۔ یہ اقدام ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے کیا گیا ہے، نہ کہ کسی معاہدے کی خلاف ورزی کے طور پر کیا گیا۔

واضح رہے کہ مصر اور اسرائیل کے درمیان 26 مارچ 1979ء کو امن معاہدہ طے پایا تھا، جو کہ 1978ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد ممکن ہوا۔ تاہم گذشتہ برس اسرائیلی افواج نے فیلاڈیلفی پر قبضہ کر کے رفح کراسنگ کے فلسطینی جانب پر کنٹرول حاصل کر لیا، اور غزہ کے مختلف علاقوں میں پیش قدمی جاری رکھی، جس کے بعد یہ تناؤ مزید شدت اختیار کر گیا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button