سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا ریٹرننگ افسران سے متعلق فیصلہ معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
جمعے کو الیکشن کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بیوروکریسی کے ذریعے عام انتخابات کرانے کا نوٹی فیکیشن معطل کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جمعے کو ہی الیکشن کمیشن کی درخواست پر تین رکنی بینچ تشکیل دے کر کیس کی سماعت شروع کر دی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ اتنی کیا جلدی ہوگئی؟ جواب میں سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن شیڈول جاری کرنے میں وقت بہت کم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو آٹھ فروری کو الیکشن کرانے ہیں۔ جواب میں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ کوشش ہے کہ آٹھ فروری کو الیکشن کروا دیں۔
اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ کوشش کیوں آپ نے الیکشن کرانے ہیں۔
سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے عمیر نیازی نے درخواست دائر کی ہے۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ عمیر نیازی کی درخواست انفرادی ہے یا پارٹی کی جانب سے؟
وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عمیر نیازی پاکستان تحریک انصاف کے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں الیکشن ایکٹ کی دفعہ 50 اور 51 چیلنج کی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت بتایا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تین رکنی بینچ کا حصہ نہیں بنے۔ ان کی کچھ اور مصروفیت تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ کو سینیئر جج ہونے پر گھر سے بلایا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کی فہرست حکومت دیتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ درخواست گزار کیا چاہتے ہیں؟ اس پر سجیل سواتی نے کہا کہ درخواست گزار چاہتے ہیں ریٹرننگ افسران عدلیہ سے لیے جائیں۔ درخواست گزار کہتے ہیں انتظامی افسران کی آر او تعیناتی ہمیشہ کے لیے ختم کی جائے۔ درخواست میں استدعا تھی کہ الیکشن کمیشن کو عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کی ہدایت کی جائے۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ شق تو کبھی بھی چیلنج کی جا سکتی تھی اب ہی کیوں کی؟ جب آر اوز وغیرہ تعینات ہو گئے تب یاد آ گئی، پہلے بھی درخواست دی جا سکتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب ریٹرننگ افسران تعینات ہوچکے تھے تو بعد میں تعیناتی کیوں چیلنج ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹرننگ افسران تو ہائی کورٹ کی مشاورت سے تعینات ہوتے ہیں۔
جواب میں وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے تمام ہائی کورٹس کو خطوط لکھے تھے مگر افسران فراہم نہیں کیے گئے، ہائی کورٹس کی جانب سے افسران کی عدم فراہمی پر دیگر اداروں سے افسران لیے۔
سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدلیہ کو فروری میں جوڈیشل افسران کے لیے خط لکھا تھا۔ عدلیہ نے زیرالتوا مقدمات کے باعث جوڈیشل افسران دینے سے معذوری ظاہر کی تھی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ اپنی ہی عدالت کے خلاف رٹ کیسے جاری کر سکتی ہے؟ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر ہی سپریم کورٹ نے انتخابات کا فیصلہ دیا تھا۔
قبل ازیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا نے ملاقات کی تھی جس میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد کی صورت حال پر غور کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی اس ملاقات میں جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شریک ہوئے جبکہ اس موقع پر اٹارنی جنرل بھی موجود تھے۔ چیف الیکشن کمشنر نے ججز کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناع سے متعلق آگاہ کیا۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے عام انتخابات بیوروکریسی سے کروانے کا الیکشن کمیشن کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے درخواستوں پر لارجر بینچ تشکیل دینے کی سفارش کر دی تھی۔ اس کے بعد جمعے کو لاہور ہائی کورٹ نے عام انتخابات کےلیے بیورورکریسی کی خدمات کے خلاف درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ 18 دسمبر کو درخواست پر سماعت کرے گا۔