اہم خبریںپاکستانتازہ ترین

تحریک انصاف کے ’سیاسی کلچر کو دوام‘ جو دیگر جماعتیں اپنانے پر مجبور ہوئیں

اس نئی تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان تحریک انصاف نے 30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں مینار پاکستان پر اپنی تاریخ کا کامیاب ترین جلسہ کیا۔

یہ ایک بحث طلب معاملہ ہے کہ پاکستان کے حالات تبدیل ہوئے یا نہیں، تاہم گذشتہ ایک دہائی میں پاکستان کا سیاسی کلچر یکسر تبدیل ہو چکا ہے جس کا تمام کریڈٹ یا ذمہ داری سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف پر عائد ہوتی ہے۔
اس نئی تبدیلی کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان تحریک انصاف نے 30 اکتوبر 2011 کو لاہور میں مینار پاکستان پر اپنی تاریخ کا کامیاب ترین جلسہ کیا۔
اس جلسے میں جہاں عوام کے جم غفیر نے اسے کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا وہیں دیگر بہت سے عوامل نے بھی فیصلہ کن کردار ادا کیا جو اس سے پہلے سیاسی میدان میں اس قدر بڑے پیمانے پر نہیں دیکھے گئے تھے۔
تحریک انصاف کے اس پہلے کامیاب ترین جلسے میں پارٹی ترانوں اور ان ترانوں میں استعمال ہونے والا ہیجان خیز میوزک اور پارٹی پرچموں کی بہتات کے ساتھ ساتھ پہننے کے لیے ٹوپیوں، بیجز اور مفلرز کا جو استعمال ہوا انہوں نے پاکستان کے آئندہ سیاسی جلسوں کے لیے ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کیا۔
فوری طور پر دیگر سیاسی جماعتیں شاید اس بات کا ادراک نہیں کر سکی تھیں اور انہوں نے اپنے جلسوں کو تبدیل کرنے سے گریز کیا۔
تحریک انصاف کے نئے سیاسی کلچر کو دوام اس وقت ملا جب 2014 میں عمران خان نے پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیا جو 126 دن تک جاری رہا۔ اسی دھرنے کے باعث ملک میں فیسٹیول نما سیاسی کلچر نے فروغ پایا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف کو جب سپریم کورٹ نے نااہل کیا تو ن لیگ نے پہلی بار ’ووٹ کو عزت دو‘ کے بول کے ساتھ اپنا پارٹی نغمہ تیز دھنوں پر ترتیب دیا اور نوجوانوں کو متوجہ کرنے کے لیے تحریک انصاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جلسوں میں جِدت لانا شروع کی۔
عمران خان نے جب پارٹی میں نئے آنے والوں کے گلوں میں پارٹی پرچم کو بطور مفلر ڈال کر انہیں خوش آمدید کرنا شروع کیا تو تقریباً ہر سیاسی جماعت بشمول ن لیگ، پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی اب اس عمل کو لازم و ملزوم تصور کرتی ہیں۔
سوشل میڈیا پر پارٹی کو کیسے منظم رکھنا ہے اور اس نئے میڈیم کو اپنے بیانیے کے لیے کیسے استعمال کرنا ہے یہ سہرا بھی عمران خان کے سر جاتا ہے۔ باقی پارٹیوں نے اس ٹرینڈ کو بہت تاخیر کے ساتھ فالو کیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی تحریک انصاف کی سب سے بڑی طاقت سوشل میڈیا ہے۔ باقی جماعتوں نے سوشل میڈیا کے استعمال میں وہی ’راہداری‘ استعمال کی جو تحریک انصاف ایک دہائی قبل اختیار کر چکی تھی۔
ٹوئٹر ٹرینڈ ہوں، جذباتی ویڈیوز یا ٹرولنگ، ہر چیز ویسے ہی کی جا رہی ہے جس کی بنیاد تحریک انصاف نے رکھی۔
حال ہی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنی سوشل میڈیا کی ٹیموں کو منظم کیا ہے اور پروفیشنلز کی خدمات حاصل کی ہیں تاکہ ڈیجیٹل سپیس پر پی ٹی آئی کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ بغیر کسی جلسے اور پارٹی میٹنگ کے ’قوم سے خطاب‘ کیا تو ان کے ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف پارٹی پرچم تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں ایسے خطاب صرف صدور یا وزرائے اعظم کرتے رہے ہیں، تاہم 2017 میں عمران خان نے بنی گالہ میں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اپنے گھر کے لان میں اپنے دونوں طرف قومی پرچم لگا کر کیمروں کے ذریعے ’قوم سے خطاب‘ کیا۔
عمران خان نے گذشتہ برس اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد تواتر سے اسی طرح کے سیٹ پر اسی حکمت عملی سے اپنے خطابات کا سلسلہ جاری رکھا۔
نواز شریف نے بھی اب اسی ریت پر عمل کیا ہے۔ انہوں نے اس سے قبل اپنی سیاسی زندگی میں ہمیشہ پریس کانفرنسز اور جلسوں کا ہی سہارا لیا تھا۔
سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر عامر حیات اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’معاشروں میں علامات کے ذریعے گروہوں کو چلانا ایک تاریخی حقیقت ہے جیسے جھنڈا ایک علامت ہے اور کئی ہزار سال سے یہ گروہوں کی شناخت کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔‘
’سماجی نظریات میں بھی علامتوں کے استعمال پر یقین رکھا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ پہلے سے ہی موجود ہے۔ تحریک انصاف نے محض حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باقی سیاسی جماعتوں کو بھی اسی کی پیروی کرنا پڑ رہی ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستان میں سیاسی جماعتیں علامتوں کا بہت زیادہ استعمال نہیں کر رہی تھیں، تاہم جیسے ہی ٹیکنالوجی نے معاشرے پر اثرات مرتب کرنا شروع کیے تو علامت نگاری کے آگے بڑھنے کے امکانات بھی بڑھے ہیں۔ اب باقی جماعتیں بھی اس طرف آگئی ہیں تو بہت جلد یہ فرق ختم ہو جائے گا۔ ‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button