
16 دسمبر ہماری ملی تاریخ کا روز سیاہ…..حکیم راحت نسیم سوہدروی
یہ ہماری ملی تاریخ کا بدترین ترین المیہ ہے کہ جو کسی لحاظ سے سقوط غرناطہ، سقوط بغداد اور سقوط دہلی سے کم نہ ہے اس عظیم المیہ سے ہمارے جسد قومی پر جو ضرب پڑی اس کے اثرات ہمیشہ محسوس کئے جائیں گے
سولہ دسمبر کا دن ہماری ملی تاریخ کا وہ روز سیاہ ہے جس دن 14 اگست 1947 کو دنیا کے جغرافیہ پر معرض وجود میں آنے والی اس وقت کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان اپنے قیام کے 24 سال 4 ماہ 98 دن کے بعد آج سے 52 سال قبل 16 دسمبر 1971 کو دولخت کردی گئی اور اس طرح وطن عزیز کا ایک بازو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا -یہ ہماری ملی تاریخ کا بدترین ترین المیہ ہے کہ جو کسی لحاظ سے سقوط غرناطہ، سقوط بغداد اور سقوط دہلی سے کم نہ ہے اس عظیم المیہ سے ہمارے جسد قومی پر جو ضرب پڑی اس کے اثرات ہمیشہ محسوس کئے جائیں گے- 16 دسمبر کا روز سیاہ جب بھی آتا ہے تو اس المیہ کی یاد دلاتا، خون کے آنسو رلاتا ہے اس المیہ پر جس قدر بھی ماتم کیا جاے، افسوس کیا جاے اسے یاد کیا جاے کم ہے مگر ملت اسلامیہ کی یہ خرماں نصیبی ہے کہ ایسے کسی بھی المیہ سے کوئ سبق حاصل نہیں کیا حقیقت یہ ہے کہ ہمارے گروہی اختلافات ،فرقہ واریت ،لسانیت اور بداعمالیوں نے ہی سقوط غرناطہ، سقوط بغداد اور سقوط دہلی جیسے اس بڑے المیہ کو جنم دیا- صدیاں گذر گئیں مگر ہم نے ماضی سے سبق نہ لیا اور سقوط ڈھاکہ کا المیہ رونما ہوگیا- 16 دسمبر کا المیہ ہم سے سوال کرتا ہے کہ ہم نے المیہ سے کیا سبق لیا اور اپنا کیا محاسبہ کیا؟
سقوط ڈھاکہ کا المیہ کس طرح رونما ہوا اس پر 52 سال سے بحث جاری ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس المیہ کے پس منظر میں وہی اسباب ہیں جو صدیوں قبل غرناطہ، بغداد اور دہلی کے سقوط کے تھے اغیار کی سازشیں ، ہماری چشم پوشیاں ، کوتاہیاں، طالع ازماوں کی مہم جوئیاں اور قومی مفاد کی بجاے ذاتی مفاد کے سامنے سجدہ ریزیاں—- اور سب کچھ تھا ایک صدی کی طویل جدوجہد ، لاکھوں انسانوں کی قربانیاں ، ہزاروں عصمت مآب خواتین کی تاراجی اور اربوں کی جائیداد کی قربانی کے بعد حاصل ہونے والا وطن پاکستان ان واحد میں دولخت ہوگیا اور آج بھی بحث یہ جاری ہے کہ شکست فوجی تھی یا سیاسی تھی ؟ حمود الرحمن کمیشن کا دائرہ اگر چہ محدود تھا مگر اس نے یہ سب واضح کردیا تھا یہ رپورٹ چھپائی گئ مگر تیس سال بعد ممالک غیر سے سامنے ا ہی گئ- ہونا تو یہ چاھئیے تھا کہ حکومت افواج اور سیاسدانوں کو اپنے کردار کا جائزہ لے کر اپنے کردار کا تعین کرکے آئندہ لائحہ طے کرنا چاہئیے تھا مگر ایسی کوئ صورت نظر نہیں آتی بلکہ سال گذشتہ رئٹائرمنٹ سے چند روز قبل جنرل باجوہ نے اسے سیاسی شکست قرار دے کر پھر بحث کا دروازہ کھول دیا-
کیا یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان کی سیاسی اشرافیہ نے بنگالیوں کا استحصال کیا وہ بنگالی جہنوں نے تقسیم بنگال کے بعد 1906 میں ڈھاکہ میں محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاس کے بعد سر اغا خان کی تجویز پر ال انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی قیام پاکستان کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا فاطمہ جناح کو ڈھاکہ سے کامیاب کرایا مگر قائد اعظم اور لیاقت علی کے بعد بنگال میں بنگالی کا مسئلہ پیش ایا اور پھر پٹ سن جو بنگال میں بہت زیادہ ہوتی تھی اور دنیا بھر میں برامد کی جاتی تھی کے بارے تاثر دیا گیا کہ مغربی پاکستان پر اس کی کمائ خرچ ہوتی ہے پھر بنگال کے تعلیمی اداروں میں ہندواساتذہ نے بھی اپنا کام دکھایا مولاناابوالکلام ازاد نے کہا تھا کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد کوئ چھوٹا سا واقعہ بھی ان دونوں حصوں میں علیحدگی کا سبب بن سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا-
اس طرح کے المیے یا سانحات ایک دن یا چند دنوں، ہفتوں ،مہنیوں میں رونما نہیں ہوتے اور نہ کسی زلزلہ یا طوفان کی طرح اچانک اتے ہیں بلکہ ان کے لئے طویل عرصہ تک ریشہ دوانیوں اور فتنوں کو پروان چڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے، قوم کا داخلی اتحاد کمزور کیا جاتا ہے، نسلی صوبائی، علاقائی، لسانی اور فرقہ واریت کے تعصبات کو پروان چڑھایا جاتا ہے تو اس قسم کے المیےجنم لیتے ہیں اگر چہ 16 دسمبر کے المیہ میں بھارتی عسکری کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا مگر اس کا موقع ہماری نادانیوں، بداعمالیوں اور داخلی اتحاد کے کمزور ہونے سے ملا – وطن عزیز جسے ہم نے قائد اعظم کی قیادت میں اسلامی نظریہ حیات کی بنیاد پر حاصل کیاتھا مگر قیام پاکستان کے بعد ہم نے اس کے مخالف سمت سفر شروع کردیا -ہم نے کعبہ کے رب سے کیا ہوا عہد توڑدیا -1970 کے انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کیا ،اقتدار منتخب نمائندوں کو نہ دیااور اس وقت سیاسی قیادت بھی فوج کے ہاتھ میں تھی کہ صدر مملکت جنرل یحی خان تھے اور فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس تھا- جب پاکستان کی بقا کی جنگ لڑی جارہی تھی تو ہم نے عالمی ادارہ یو این او کی جنگ بندی کی قرارداد پھاڑ دی اگر چہ سقوط ڈھاکہ کے فوری محرکات میں یہ اہم عوامل ہیں مگر بنیادی اسباب میں طویل عرصہ مارشل لا کا قیام ،بیوروکریسی کے روئیے، جمہوری عمل پر لمبا عرصہ پابندی، قومی سوچ کی بجاے علاقائی اور گروہی سوچ اور سیاستدانوں کا عوامی مسائل سے چشم پوشی —— یوں غیروں کو مداخلت کا موقع مل گیا
ہماری افواج جس کا شمار دنیا کی اعلی افواج میں ہوتا ہے نے جس ذلت آمیز طریقے سے ہتھیارڈالے وہ کوئ کم بے عزتی نہ تھی مگر ہم نے اس کے بعد بھی کوئ احتساب نہ کیا اور کوئ سبق نہ لیا حالات گواہ ہیں کہ ہم آج بھی گروہی تعصبات کا شکار ہیں سماجی انصاف کا دوردور تک نام نہیں ادارے اپنی ساکھ کھو چکے ہیں انصاف غریب کے لئے نہیں ہے قومی وقار کی بحالی کے لئے کوئ کام دانستہ یا شعوری طور پر نہیں ہوا 16 دسمبر کو چند فورموں یا اخباری مضامین سے قومی مورال یا حکمت عملی طے نہیں پاتی کشمیری عوام جو تکمیل پاکستان کی جنگ لڑرہے ہیں ہم ان سے لا تعلق ہیں، فرقہ واریت عروج پر ہے، عوام مسائل کا شکار ہیں، معاشی حالات بد ترین ہیں، لاقانونیت زوروں پر ہے، سیاسی عدم استحکام ہے، کالا باغ اور کشمیر جیسے قومی ایشوز پر اتفاق رائے نہیں، قیادتوں کے پاس ایسے امور کے لئے وقت ہی نہیں فکری انتشار نے جسد قومی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے قوم اپنے تشخص سے محروم ہو رہی ہے جن پر راہنمائ کا فریضہ ہے ان کے دامن پر بدعنوانیوں اور لوٹ مار کے الزامات ہیں ملک عالمی بنک اور ائ ایم ایف کی معاشی غلامی میں دیا جاچکا ہے قومی اثاثے گروی رکھے جاچکے ہیں عام آدمی کو روٹی کے لالے پڑے ہوے ہیں ادارے بے توقیر ہو گئے ہیں امیر طبقہ احتساب سے با لا تر ہے اور قانون صرف غریبوں کے لئے رہ گیا ہے – پاکستان کا مشرقی حصہ الگ نہیں ہوا بلکہ پاکستان دو لخت ہوا 23 مارچ 1940 کو قوم قائد اعظم کی قیادت میں جسد واحد تھی قوم کا ہر طبقہ ان کی قیادت میں متحد ومتفق تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بیک وقت دو بالادست اقوام انگریز اور ہندو سے جنگ جیتی مگر جوں ہی قیادت کے بحران نے جنم لیا اتحاد کی فضا ختم ہوئ تو سقوط غرناطہ، بغداد اور دہلی کی تاریخ دہرائی جا سکی –
قومی نظام کا حشر سب کے سامنے ہے آخر ہم کب تک مسائل سے چشم پوشی کریں گے ؟ قوم کے داخلی اتحاد اور سیاسی استحکام میں ہی ملک کی بقا ہے قائداعظم کا یہ فرمان آج بھی ہمارے لئے راہنما اصول ہے کہ : اس بار عظیم (تعمیر پاکستان) کی شدت اور سنگینی سے گھبرانا نہیں چاہئیے تاریخ میں کئ اقوام کی مثالیں موجود ہیں جہنوں نے محض قوت ارادی اور بلند کرداری سے خود کو مضبوط بنایا اور عظیم کیا ہمارے دشمنوں کی ریشہ دوانیوں کا موزوں جواب یہ ہے کہ ہم اپنی مملکت کو مضبوط ومستحکم بنیاروں پرتعمیر کریں ایک ایسی مملکت جو ہمارے بچوں کے لئے موزوں جگہ ہو اس کےلئے کام اور بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے -:
حکومت کو حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی روشنی میں اقدامات کرنا ہوں گے سیاسی وعسکری قیادت کے ساتھ عدلیہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور ہرشہری کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی لیکن ایک المیہ یہ ہے کہ احساس زیاں جاتا رھا ہے