پیر مشتاق رضویکالمز

ملت کا پاسباں ،محمد علی جناح…..پیر مشتاق رضوی

انہوں نے لندن میں تعلیمی ادارے "لنکنز ان " میں اس لیے داخلہ لیا کہ اس کے صدر دروازے پر دنیا کی عظیم شخصیات کے ناموں میں سر فہرست حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم گرامی درج تھا

19-ویں صدی میں جب عظیم بلاد اسلامیہ مملکت خداد خلافت عثمانیہ زوال پذیر تھی تو قدرت برصغیر پاک و ہند میں نشاۃ الثانیہ کے احیاء کا ساماں کر رہی تھی جس کے لئے قدرت الٰہیہ نے کراچی میں محمد علی جناح کو پیدا فرمایا محمد علی جناح ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے سچے مسلم راھنما، ملت اسلامیہ کے سپاہی اور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے سچے پیروکار تھے کیونکہ انہوں نے لندن میں تعلیمی ادارے "لنکنز ان ” میں اس لیے داخلہ لیا کہ اس کے صدر دروازے پر دنیا کی عظیم شخصیات کے ناموں میں سر فہرست حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسم گرامی درج تھا یہ ان کی آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے سچی محبت کا عملی ثبوت تھا .
محمد علی جناح 1896ء میں انگلستان سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس وطن پہنچے اور کراچی میں اپنی وکالت کا اغاز کیا وہاں انہیں کوئی خاصی کامیابی حاصل نہ ہوئی تو وہ قسمت آزمائی کے لئے بمبئی چلے گئے بمبئی میں جلد ہی انہیں خداداد قابلیت کی بناء پر ایک قابل قانون دان کی حیثیت سے خاصی شہرت اور مقبولیت ملنا شروع ہوئی عوامی طبقات میں بھی پذیرائی حاصل ہوئی اور اشرافیہ میں بھی ان کا طوطی بولنے لگا اس دور میں برصغیر پاک و ہند میں نو آبادیاتی نظام پوری طرح مسلط تھا جبکہ انگریز پورے بر صغیر پر پوری طاقت اور قوت کے ساتھ قابض تھے مسلمان غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور تھے سر سید احمد خان کی کوششوں سے مسلمانوں کی ابتر صورتحال کی اصلاح کا آغاز ہو چکا تھا تحریک علی گڑھ کی بدولت جب برصغیر پاک و ہند کے محکوم مسلمانوں میں تعلیمی ترقی شروع ہوئی اور بتدریجا” پڑھی لکھی قیادت ابھر کر سامنے آئی 1906ء میں مسلم لیگ بھی قائم ہو چکی تھی اس قبل 1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا اور جو پورے ہندوستانی بسنے والوں کو ایک قوم گردانتی تھی سر سید احمد خان کی رحلت کے بعد ان کے جانشینوں نے مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ھوا تھا مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور مسلم تشخص کی بحالی کے لئے جدوجہد کا آغاز ھو چکا تھا اوائل میں مسٹر جناح کانگرس اور مسلم لیگ دونوں سیاسی جماعتوں کے ممبر رہے انہوں نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے اپنی مخلصانہ کوششوں کا اغاز کیا جس کے نتیجے میں اپ کو” ہندو مسلم اتحاد کا سفیر "کہا جاتا تھا مسٹر جناح برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی اور معاشرتی بدترین صورتحال سے بخوبی آگاہی رکھتے تھے وہ صاحب بصیرت بھی تھے انہوں نے بر صغیر میں امت مسلمہ کی عظمت رفتہ اور وقار کو بحال کرنے اور قومی بقا کے لیے اپنی زندگی کو وقف کردیا انہوں نے سب سے پہلے مسلمانوں کے ائینی حقوق کی تحفظ کیے لئے قانونی جدوجہد شروع کی اس حوالے سے انہوں نے مسلمانوں کے وجود کو تسلیم کرایا اور سرسید کے دو قومی نظریے کو آگے بڑھایا اس سلسلے 1916ء میں مسٹر جناح کی ذاتی کوششوں کے نتیجے میں کانگریس اور مسلمانوں کے مشترکہ اجلاس ہوا جسمیں کانگرس نے پہلی مرتبہ مسلمانوں کے الگ وجود کو تسلیم کیا بلکہ مسلمانوں کے لیے جداگانہ حق رائے انتخاب کو بھی تسلیم کیا گیا مسٹر جناح کی یہ تاریخی کامیابی تھی جو برصغیر میں نشاۃالثانیہ کے لیے ایک پیش خیمہ ثابت ہوئی لیکن ہندوؤں کے روایتی تعصب اور مسلم دشمنی کی بنا پر مسٹر جناح کانگرس سے علیحدہ ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے مکمل طور پر بر صغیر کے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا 1928ء نہرو رپورٹ میں کانگرس نے مسلمانوں کے علیحدہ قومی وجود اور حیثیت کو یکسر مسترد کر دیا اس کے ساتھ دیگر اقلیتوں کے وجود سے بھی انکار کر دیا گیا جس کے جواب میں مسٹر جناح نے 1929ء میں اپنے مشہور 14 نکات پیش کیے جو کہ برصغیر پاک وھند کے لیے ایک جامع ائینی اور قانونی فریم ورک تھا جس میں برصغیر پاک و ہند کے ائینی معاملات کی تصریح اور وضاحت بھی کی گئی تھی جبکہ دیگر مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے حقوق ان کا تحفظ اور بقا کے اقدامات تجویز کیے گئے تھے انگریز سامراج بھی برصغیر میں نو آبادیاتی نظام کے عبوری دور میں برصغیر پاک و ہند میں ائینی اصلاحات نافذ کرنا چاہتا تھا اور برصغیر پاک و ہند کے مستقبل کے بارے فیصلہ کن اقدامات کیے جا رہے تھے جناح کے 14 نکات برصغیر کے تمام سیاسی مسائل کے حل کا پیش خیمہ تھی 1930ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور دیا گیا 1934ء میں مسٹر جناح نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی مسٹر جناح آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بن گئے انہوں نے برصغیر کے منتشر اور مایوس مسلمانوں کو منظم کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد کیا مسلم لیگ کو ایک مقبول عوامی اور مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بنایا اس سے قبل 1930ء میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے خطبہ الہ آباد دیا تھاجس میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ آزاد ریاست کا تصور پیش کیا جو کہ جناح کی سیاسی جدوجہد کا منشور بنا 1930ء میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور دیا گیا لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے اس کے لیے باقاعدہ سیاسی تحریک شروع نہ کی تھی 1940ء میں مسلمانوں نے اپنی سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ٹھان لی اور پاکستان کا حصول ان کی جدوجہد کی منزل بنا انگریز سامراج نے برصغیر پاک و ہند میں بھی انگریزی طرز کا پارلیمانی نظام رائج کیا اس سلسلے 37-1935ء کے عام انتخابات ہوئے جس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کر سکی لیکن اس انتخاب میں مسٹر جناح کی انتھک کوششوں سے مسلم قوم کا الگ وجود تسلیم کرایا گیا اور مسلمانوں کی جدا گانہ حق انتخاب ناگزیر قرار دلوایا برصغیر کے مسلمانوں نے بھی مسٹر جناح کو قائد اعظم کے طور پر تسلیم کرلیا 1940ء میں لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور منظور کی گئی جو بعد میں” قرارداد پاکستان” کے نام سے مشہور ہوئی 23 مارچ 1940ء کی قرارداد ،پاکستان کا سنگ بنیاد تھی 1940ء کے بعد مسلمانوں نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان کے حصول کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور اپنی منزل کا تعین کر لیا تھا سات سال کے دوران ایک سیاسی انقلاب برپا ہوا.
قائد اعظم کوئی سرمایہ دار اور جاگیردار نہ تھے ،کوئی سردار اور بڑےوڈیرہ تھے ان کے پاس اقتدار تھا نہ باقاعدہ کوئی فورس یا لشکر موجود تھا ان کے پاس ایک نظریہ تھا جس کی بنیاد یقین محکم اور عمل پہم تھا انگریز سامراج جیسی ناقابل شکست طاقتور قوم ،مکار اور سرمایہ دار ہندو بنیا پنجاب میں یونینسٹ سردار، جاگیردار خوانین اور سرمایہ دار کے علاؤہ انگریزوں کے پروردہ اشرافیہ کے ساتھ ساتھ کانگرس نواز مولویوں نے بھی قائد اعظم کی بھرپور مخالفت کی مولوی قائد اعظم کو کافر اعظم اور پاکستان کو کافرستان کہتے رہے لیکن قائد اعظم نے اتحاد تنظیم اور یقین محکم کے ساتھ اپنی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچایا اپنوں اور غیروں کی مخالفت کا سچائی دیانت داری اور مستقل مزاجی کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا انہوں نے جھوٹ مکر و فریب اور روایتی سیاست سے بالاتر ہو کر سچ اور اصولوں پر کار بند رہتے ہوئے اپنے عظیم مقصد کو حاصل کیا اسی لیے قائد نے فرمایا تھا کہ "پاکستان صدیوں پہلے اس دن وجود میں آگیا تھا جب ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان بنا”46-1945ء کے عام انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک واحد مسلم نمائندہ جماعت بن کر ابھری جس کے امیدواروں نے اپنے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کرا دیں 37-1935ء کے انتخابات کے برعکس 46-1945ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نے تاریخ ساز کامیابی حاصل کی جس کا تمام تر سہرا قائد اعظم محمد علی جناح کے سر جاتا ہے انتخابات میں قائد اعظم نے” بن کے رہے گا پاکستان” اور ” لے کے رہیں گے پاکستان ” کا انتخابی منشور دیا اور پاکستان کے نام پر یہ الیکشن لڑا گیا جبکہ کانگرس نے اکھنڈ بھارت یعنی بھارت کی تقسیم ناقابل قبول کے انتخابی منشور پر الیکشن لڑا الیکشن کے نتائج کی بناء پر پاکستان کا قیام ناگزیر ہوا اور دنیا کا نقشہ بدل کے رہ گیا دنیا کے نقشے پرنیا ملک پاکستان بن کر ابھرا جو کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیا گیا جس کے مسلمانوں نے لازوال اور نا قابل فراموش قربانیاں دیں نہرو کے بقول "اگر کانگرس کے پاس ایک جناح ہوتے اور مسلم لیگ کے پاس 100 گاندھی ہوتے تو ھندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا” قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں برصغیر پاک و ہند میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر سےے نو آبادیاتی نظام کے خاتمہ ہوا قائد اعظم نے انگریزوں کو انہی کے قانون سے مات دی جبکہ اپنوں اور غیروں کی مخالفت کو ایمان کامل، سچائی،دیانت داری ،ایمانداری اور الولعزمی سے شکست دی پاکستان قائد اعظم کی آئینی جدوجہد کے نتیجے میں ووٹ کی طاقت سے قائم ہوا برصغیر میں صدیوں سے مسلط نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہوا اور انگریز سامراج کو برصغیر آزاد کرنا ہی پڑا قائد اعظم نے نو آبادیاتی نظام میں جکڑے ہوئی اقوام عالم کو بھی آزادی کی تحریک بخشی اور جذبہ ءحریت عطا کیا قائد اعظم صرف نہ صرف جنوب ایشیا کے بلکہ عالم اسلام کے نجات دہندہ ہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر سے سامراج کےنوآبادیاتی نظام کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کیا قائد اعظم کی شخصیت اور کردار ہمارے سیاست دانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہے کہ انہوں نے اپنے عزم استقلال سے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے خواب کو تعبیر بخشی اپ قوم کا فریضہ پاکستان کی تعمیر وترقی میں اپنا عملی کردار ادا کری یقینا” ہم اقبال اور قائد کے فرمودات پر عمل کر کے پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا سکتے ہیں

یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران
اے قائد اعظم تیرا احسان ہے تیرا احسان

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button