کون بنے گا ۔۔ملک کا حکمران ؟……پیر مشتاق رضوی
میاں محمد نواز شریف چوتھی بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوں گے جبکہ سابق صدر آصف زرداری بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ آئندہ ملک میں ہماری حکومت بنے گی اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم لاہور سے نہیں ہوگا اور وہ خود وزیراعظم کے امیدوار ہیں
میاں محمد نواز شریف کے کاغذات نامزندگی کی منظوری پر میاں شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سنہری دور جلد واپس ائے گا مسلم لیگ ن کی کامیابی یقینی ہے اور میاں محمد نواز شریف چوتھی بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوں گے جبکہ سابق صدر آصف زرداری بڑے اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں کہ آئندہ ملک میں ہماری حکومت بنے گی اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ آئندہ وزیراعظم لاہور سے نہیں ہوگا اور وہ خود وزیراعظم کے امیدوار ہیں اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر سید احمد محمود نے کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی پوزیشن مستحکم ہے اور دو تہائی اکثریت حاصل کریں گے ادھر پی ٹی ائی زعم کا شکار ہے کہ عمران نیازی کو ملک میں 70 فیصد مقبولیت حاصل ہے اگر ملک میں فری اینڈ فیر الیکشن ہوں اور پی ٹی ائی کو لیول پلینگ فیلڈ ملے تو پی ٹی ائی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی بیرسٹر حامد خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ لیول پلینگ فیلڈ نہ ملے صرف فیلڈ ملے تو پی ٹی ائی جیت سکتی ہے
ان سہ طرفی بیانیوں کی روشنی میں تمام تر دعوؤں کا اور ملک کے مستقبل کا انحصار آٹھ فروری کے الیکشن کے نتائج پر ہے
مسلم لیگ ن،اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی پر منظم انداز میں انتخابی مہم کو آگے بڑھا رہی ہے لیگی قیادت کو 16 ماہ کی حکومت کے نتائج کا بھرپور احساس ہے اور شاید عوام میں مقبولیت کے اندازوں کی جانکاری بھی حاصل ہے اس لیے مسلم لیگ ن کی قیادت ڈائریکٹ عوام میں جانے کی بجائے الیکٹیبلز اور اتحادیوں کے ذریعے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی ہے سب سے پہلے بلوچستان میں باپ پارٹی اور کراچی میں ایم کیو ایم اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھائی گئی پنجاب میں ایم کیو ایم مسلم لیگ ق، استحکام پاکستان پارٹی اور بااثر ایلیکٹیبلز کو بھی ساتھ ملانے کی کوششیں جا رہی ہے جبکہ جے یو آئی فضل الرحمان گروپ سے مسلم لیگ نے پہلے ہی بھرپور گٹھ جوڑ کر رکھا ہے سندھ میں ایم کیو ایم ،مولانا فضل الرحمن، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور دیگر الیکٹیبلز کے ساتھ ملکر سندھ میں پی پی کو ٹف ٹائم دیا جائے اور اس بار سندھ میں پیپلز پارٹی کی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکتا ہے جبکہ 2018ء میں ایم کیو ایم سے قومی اسمبلی کی متعدد نشستیں لے کر پی ٹی ائی کے امیدواروں کو کامیاب کرایا گیا اور اب ان نشستوں پر ایم کی ایم دوبارہ اپنا کنٹرول حاصل کر کے کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے اس طرح پنجاب میں گزشتہ دور میں پی ٹی ائی نے پی پی کے خلاء کو پر کیا تھا اور پیپلز پارٹی پنجاب کی رہنماؤں کی وکٹیں گرا کر انہیں اپنے ساتھ ملایا تھا اس طرح 2018 ءکے الیکشن میں پنجاب میں تبدیلی لانے والوں نے مسلم لیگ ن کی اکثریت بھی تبدیل کر کے رکھ دی تھی بقول بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ختم کرنے کی سازش کی گئی لیکن مسلم لیگ ن حالیہ انتخابات میں پنجاب میں بلخصوص بھرپور کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ "تخت لاہور "پر قبضہ تینوں سیاسی پارٹیاں یعنی مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی ائی کے لیے ایک اہم ترین ٹاسک ہے مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کا دعویٰ ہے کہ پنجاب میں ایک سے زیادہ نشستیں حاصل کریں گے قائد مسلم لیگ میاں نواز شریف بھی اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ ہم ملک چلانے کے لیے سب کو ساتھ ملا کر چلیں گے مسلم لیگ کے اقتدار حاصل کرنے کی حکمت عملی سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن الیکٹریبلز اور اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخابات میں کامیاب حاصل کرنا چاہتی ہے اس طرح میاں محمد نواز شریف اپنی قیادت میں ایک قومی پارٹی بنانے جا رہے ہیں جس میں اتحادیوں میں مولانا فضل الرحمان ایم کیو ایم ،استحکام پارٹی ،مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی کا اشتراک عمل بھی حاصل ہوگا پنجاب میں بی پی کے سابق اراکین بھی مسلم لیگ ن میں شامل ہو رہے ہیں اور یہ وہ اراکین ہیں جو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے جبکہ مسلم لیگ ن پنجاب میں بھی اتحادیوں کے ساتھ مل کر انتخابی مہم میں مصروف عمل ہے پاکستان پیپلز پارٹی بھی لیول پلینگ فیلڈ کے لیے مسلسل مطالبہ کر رہی ہے اور پی پی کی قیادت پی ٹی ائی کے انتخابات میں آزادانہ حصہ لینے کے پر راضی ہے اس سلسلے بلاول بھٹو بھی پی ٹی ائی کی پابند سلاسل لیڈرشپ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں جبکہ پی پی مسلسل مسلم لیگ ن کی قیادت پر الزام لگا رہی ہے کہ نگران حکمران مسلم لیگ ن کے لیے سہولت کاری کر رہے ہیں ایک لاڈلے کےبعد دوسرا لاڈلا لایا جارہا ہے اس سلسلے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ناانصافی ہوئی اور وہ ان انصافیوں کا ازالہ کرنا چاہتی ہےاسی طرح میاں محمد نواز شریف کو عدالتوں سے ریلیف دلا کر الیکشن میں حصہ لینے کا اہل بنایا گیا اب یہ نواز شریف کو اقتدار میں لایا جا رہا ہے اور بلاول بھٹو زرداری بار بار کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم مسلط کیا جا رہا ہے ادھر عدالتی ریمارکس میں عمران خان کو معصوم اور اکثریتی پارٹی کا قائد کہنے پر مسلم لیگ ن نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ انصاف کے ترازو کے پلڑ ے کا جھکاؤ لاڈلے کی طرف ہے اس سلسلے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی باقیات اکٹھی ہو رہی ہے جبکہ انتخابی نشان بلے کی بحالی کے بارے بھی "پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے اختیارات پر حملہ ہے”
فی الحقیقت عدلیہ کی طرف سے عمران نیازی پر قائم سنگین مقدمات تقریباً نل این وائڈ ہو چکے ہیں ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ کی طرف سے لیول پلینگ فیلڈ کا سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے اور مسلم لیگ ن کی قیادت شدید تحفظات کا شکار ہے کہ کہیں ان کے ساتھ ہاتھ تو نہیں ہو رہا کہ عمران نیازی کو پھر مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اس تناظر میں ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ کی طرف سے مسلم لیگ ن کی قیادت اور عمران نیازی کو برابر ریلیف مل رہا ہے اب مسلم لیگ کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے اور اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے ادھر پی ٹی ائی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بیک ڈور چینل کے رابطےبھی ہورہے ہیں عمران نیازی کی اھلیہ بشریٰ بی بی نے سابق صدرآصف زرداری کے بعض قریب دوستوں کے ذریعے آصف زرداری رابطے کیے ہیں اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی پیشکش بھی کی ہے اور پی پی پی کی قیادت نے اس سلسلے مثبت اشارے بھی دیے ہیں مسلم لیگ ن کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی پی ٹی ائی کے ساتھ مل کر پنجاب کے انتخابی معرکہ کو سر کرنا چاہتی ہے اور پنجاب میں اپنی اکثریت حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ شریف برادران اتحادیوں کو ساتھ ملا کر سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اجارہ داری کو ختم کر کے سندھ کو فتح کرنا چاہتی ہے جبکہ آصف زرداری پی ٹی ائی کے ساتھ مل کر تخت لاہور پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن پی ٹی ائی کی قیادت کو قید و بند ، گرفتاریوں اور مقدمات کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اب جب کہ پانی پارٹی عمران نیازی کی جگہ بیرسٹر گوہر خان نئے چیئرمین بن چکے ہیں اور پی ٹی آئی کی قائم مقام قیادت کو یہ پتہ ہے کہ حالیہ الیکشن عمران نیازی کے بغیر ہوں گے کیونکہ الیکشن کمیشن کے نااہلی کے فیصلے کی وجہ سے عمران نیازی الیکشن سے باہر ہوں گے اور پی ٹی ائی اپنے بانی پارٹی کے بغیر الیکشن لڑے گی
سیاسی تجزیہ کاران کا کہنا ہے کہ پنجاب فتح کرنے والا ہی پاکستان کا حکمران بنتا ہے