حافظ شفیق الرحمنکالمز

حقوقِ نسواں اور قاضی فائز عیسیٰ کی رگ-حمیت ……….حافظ شفیق الرحمن

"تمہیں کسی فریق کی دشمنی اس بات پر نہ اکسائے کہ تم عدل شعاری چھوڑ دو ،عدل کرو کہ یہی پر پرہیزگاری کے قریب ہے".

عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب !
کتاب-زندہ قرأن حکیم کی اس آیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں :
"تمہیں کسی فریق کی دشمنی اس بات پر نہ اکسائے کہ تم عدل شعاری چھوڑ دو ،عدل کرو کہ یہی پر پرہیزگاری کے قریب ہے”.
قاضی صاحب ! اپنے منصب اور مسند کا کم از کم بہ نفس نفیس تو احترام کریں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی فسطائیت کا نوٹس لیں۔ بھولے باشاہ نہ بنیں۔ جیتے جاگتے زمینی حقائق سے بے خبر اور لاعلم ہونے کا تأثر نہ دیں۔ سنا ہے کہ آپ تو خواتین کے حقوق کے بہت بڑے پرچم بردار ہیں۔ أپ کے ہوتے خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے ۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ ایک خاص جماعت کے کارکنوں کے گھروں میں گھس کر ان کی ماؤں ، بہنوں او بیٹیوں کے سروں سے ردائیں کھنچی جا رہی ہیں ۔ انہیں بالوں سے گھسیٹا جارہا ہے ، آنہیں دھکے اور مادر پدر برہنہ گالیاں دی جا رہی ہیں۔ ان پر باوردی اہل کار فحش آوازے کستے ہیں۔ ان کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے ، ستر سالہ ریحانہ امتیاز ڈار کو حملہ آور ریپ تک کرنے کی دھمکی دیتے ہیں ، اسی پر بس نہیں ممتاز سیاسی رہنما اور سینئیر پارلیمنٹیرین جناب جمشید دستی کی عفت مأب بیوی کا لباس تک اس کے 7 سالہ بھائی کے سامنے تار تار کر دیا گیا ، دس ماہ کا بیٹا ماں کی یہ حالت زار دیکھ کر چیختا چلاتا رہا ۔۔۔ پاکستان کی بیٹی بیگم جمشید دستی ۔۔۔ اپنی بیگم کو ساتھ کھڑا کر کے قاضی القضاۃ کا حلف اٹھانے والے قاضی فائز عیسیٰ سے بہ زبان حال سوال کر رہی ہے کہ حقوق نسواں کے پرچم بردار چیف جسٹس کہاں ہیں ؟ ان کی رگ-انصاف کب پھڑکے گی؟
بعض کارکنوں کے گھروں میں کاروائی کے دوران حکومتی مشینری کے شقی اہلکاروں نے ان کے بچوں کے نرم و نازک گالوں پر تھپڑ رسید کیے ، بعض معصوموں کو اٹھا کر فرش زمین پر دے مارا ، معصوم بچوں کے سامنے ان کے بڑوں کو گھونسوں ، لاٹھیوں ، ٹھڈوں اور بندوق کے بٹوں سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، دروازے ، کھڑکیاں ، دیواریں ، فرنیچر ،کراکری ، آرائشی سامان اور سی سی ٹی وی کیمروں تک کو توڑا گیا ، بوڑھی خواتین کو بازوؤں سے پکڑ کر دھکیلتے ہوئے اپنے ہی گھر سے باہر نکالا ، گھر کو تالے لگائے اور کھلے آسماں تلے فٹ پاتھ پر لا کر بٹھایا گیا ۔ جاتے ہوئے دھاوا بولنے والے نقاب۔ پوش گھر کا قیمتی سامان ، مہنگے ترین الیکٹرونک آلات ، بچوں کے کھلونے ، فینسی کپڑے ،جیولری، موبائلز اور بھاری نقدی بھی لے کر چلتے بنے ، یہ ظلم آج بھی جاری ہے ، یہ کل کی بات ہے کہ مراد سعید کی ساس کو زد و کوب کیا گیا ۔ کیا چیف جسٹس کے علم میں نہیں کہ بیسیوں خواتین سیاسی خواتین ورکر صنم جاوید ، ڈکٹر یاسمین راشد 7 ماہ سے ایک جھوٹے الزام میں جیل میں پڑی ہیں۔ کیا انہیں یہ خبر نہیں پہنچی؟
ستم بالائے ستم یہ کہ دن دہاڑے بر سر عام باوردی فورس تحریک انصاف کے امیدواروں سے کاغذات نامزدگی چھیننے کے علاوہ ان کے تائید کنندگان اور تجویز کنندگان کو ماورائے عدالت اغوا کرتی رہی۔ اس پر آپ کی معنی خیز لب بستگی اور پر اسرار خاموشی انصاف کے متلاشیوں کے لیے اذیت ناک حد تک حیران کن ہیں۔۔
عجیب منصف اعلی ہے کہتا ہے کہ جبری گم شدہ افراد خود عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوتے ؟ کل کلاں لائیو عدالتی تھیٹر میں بڑھک مار دے گا کہ بھٹو دور میں سانحہفف لیاقت باغ راولپنڈی میں نیشنل عوامی پارٹی ، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں منہاج القرآن کے شہداء اور سانحہ 25 مئی 2022 ء اسلام آباد کے مقتولین خود عدالت میں پیش ہو کر انصاف کے نقارے پر ضرب لگائے ؟ ۔۔۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ جسٹس منیر ، مولوی مشتاق ، نسیم حسن شاہ ، رفیق تارڑ ، اجمل میاں ، جسٹس قیوم اور جسٹس ڈوگر کی بد روحیں عدالت عظمیٰ کے سقف و بام پر پر سایہ فگن ہیں۔
قاضی فائز صاحب ! خدا را مت بھولیے کہ جان اللہ کو دینی ہے ، اسے لکھے ہوئے فیصلے کے ہر لفظ ، بولے ہوئے ریمارکس کے ہر حرف اور دوران سماعت چہرے ، پیشانی اور ہونٹوں کی ہر جنبش کا حساب دینا ہوگا ۔ یہ حساب صرف مالک یوم الدین لے گا۔ جان صرف اور صرف اس اللہ کو دینی ہے جو انسانوں کی آنکھوں کی خیانت اور سینوں میں چھپے ہوئے رازوں کو بھی جانتا ہے ۔۔۔ ناں کہ ۔۔۔ کسی قارون صفت مافیا کے گاڈ فادر یا عصا بردار۔ فرعون سرشت ڈکٹیٹر کو ۔
للہ ! حقائق سے قصداً چشم پوشی نہ کیجیے ۔ عوام آپ کی عدالت کی لائیو کوریج دیکھ رہے اور آپ کے دل خراش اور روح فرسا ریمارکس کو نقد و نظر کے ترازو میں تول رہے ہیں۔
پوری قوم جانتی ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ محفوظ ہو کیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا ہے ، گلی میں کھڑا اور تھڑے پر بیٹھا عام پاکستانی بھی جانتا ہے ۔۔۔ سسیلین مافیا کا گاڈ فادر ، سزا یافتہ عدالتی مجرم ، مفرور عدالتی ، اشتہاری مجرم ، تا حیات نا اہل ، کیلبری فونٹ ، قطری خط ، منی ٹریل اور ایون فیلڈ ایسے سنگین جرائم کے باوجود اس کی نا اہلی ختم کر کے اسے بریت کا پروانہ دینے میں آپ تاخیر نہیں کریں گے۔
اسے کہتے ہیں انصاف کا دہرا معیار!
درست کہا ستار چوہدری نے:
"کیسا حسین اتفاق ہے.. جو نااہل ہے وہ بھی لندن فلیٹس کی رسیدیں نہیں دے سکا، اور جو اہل کرے گا وہ بھی لندن فلیٹس کی رسیدیں نہیں دے سکا” ۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button