رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوھر ……….حکیم راحت نسیم سوھدروی
ملت اسلامیہ کا یہ عظیم فرزند بلند پایہ شاعر، شعلہ نوا مقرر،انگریزی اور اردو کا مایہ نازانشاپرداز،صحافی، ادیب،اور نڈر عوامی راہنما 1878 میں رام پور کے ایک قبیلہ کاکازئی کے دینی گھرانے میں پیداھوے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو تا ابد یہ امتیازی خصوصیت حاصل رہے گی کہ اس کے فیضان سے ایسے ایسے گوہرنامدار منظر عام پر اے جہنوں نے تحریک پاکستان کے لئے بے لوث کام کرکے میدان عمل بنایا اور اور اسے کامیاب کرکے دنیا کے نقشہ پر اس وقت کی سب سے بڑی مملکت اسلامی قائم کرکے دنیا کا جغرافیہ ہی نہیں بدلا بلکہ عظیم مملکت اسلامی کو وجود بخشا- علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کےان عظیم المرتبت فرزندوں میں جن کی زندگی کے شب وروز ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی بحالی اور فرنگی حکمرانوں سے آزادی کی جدوجہد میں گزرے ،فرنگی قہرمانیت جن کے پائے استقلال میں لغرش پیدا نہ کر سکی ان میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی جوھر کا نام بہت نمایاں ہے
ملت اسلامیہ کا یہ عظیم فرزند بلند پایہ شاعر، شعلہ نوا مقرر،انگریزی اور اردو کا مایہ نازانشاپرداز،صحافی، ادیب،اور نڈر عوامی راہنما 1878 میں رام پور کے ایک قبیلہ کاکازئی کے دینی گھرانے میں پیداھوے- بچپن میں والد کا انتقال ھوگیا اور یوں والدہ نے پرورش کی جو تحریک خلافت میں بی اماں کے نام سے معروف ہو ئیں اور دوران تحریک یہ شعر زبان زدو خاص و عام ہوا
بولی اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
تحریک خلافت ھی بدولت ھمارے ہاں فرنگی حکمرانوں کے خلاف جذبہ جہاد پیدا ھوا سیاسی بیداری کی لہر اٹھی اور سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد میسر ائ مولانا محمد علی جوہر اور ان کے برادر مولانا شوکت علی تحریک کے سر خیل تھے اور دونوں بھائی علی برادران کے نام سے معروف عالم ہوے اور اج تک اسی نام سے یاد کئے جاتے ھیں یھی وہ تحریک ھے جس نے تحریک پاکستان کے لئے ابتدائ سیاسی کارکن فراہم کئے
مولانا محمد علی جوہر اسلام سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جذبہ ازادی سے سرشار تھے علی گڑھ سے تعلیم یافتہ تھے انھوں نے مسلمانوں کی جداگانہ حثیت کا علم بلند کیا وہ پان اسلام ازم کے علمبردار تھے اور عالم اسلام کے مسلمانوں کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھتے تھے مسلمانوں پر کہیں کوئ مصیبت اتی تو مولانا کا قلم اور زبان طاغوتی طاقتوں کے خلاف آگ برساتا- جب سامراج نے مسلمانوں کی مرکزیت خلافت ختم کرنے کے لئے ریشیہ دوانیاں شروع کیں تو مولانا نے پورے برصغیر میں تحریک چلا کر خواب ئیدہ ملت کو بیدار کردیا یہ تحریک خلافت کے نام سے ھماری ملی تاریخ کا عنوان جلی ھے انہی ایام میں مولانا نے اپنے اخبار کامریڈ میں ترکی کے موقف کی حمایت میں ایک مقالہ چوائس اف ترکیہ لکھا جس کی روداد خود ان کی زبانی سنیئے
” میں نے یہ مضمون چالیس گھنٹہ کی محنت شاقہ کے بعد لکھا ھے اور اس تمام عرصہ میں ایک منٹ بھی نہ سویا اور جب لکھتے لکھتے تھک جاتا تو اپنے اسسٹنٹ ایڈیٹر کو خود بولتا اور ان سے لکھواتا جاتا اس طرح چالیس گھنٹے نہ صرف سونے محروم رہا بلکہ خوراک بھی چائے کی چند پیالیوں سے مشکل ھی اگے بڑھی:
یہ اپ کی اسلام سے والہانہ محبت اور خلوص نیت کا ثبوت ھے مولانا نے ھمدرد اور کامریڈ کے نام سے اردو اور انگریزی اخبار جاری کئے یہ اس قدر اعلی درجہ کے تھے کہ جب کوئ انگریز واپس برطانیہ جاتا تو کامریڈ کے شمارے اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئےتحفہ کے طور لے کر جاتے برصغیر کی صحافت میں مسلمانوں کی بیداری کے لئے الہلال، زمیندار اور کامریڈ اور ھمدرد کا کردار کبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ھے- مولانا محمد علی جوہر تمام عمر فرنگی حکمرانوں کو للکار اور ہندوں کی اسلام دشمنی کو بھی بے نقاب کیا نامور انگریز مصنف جی ایچ ویلز نے کھا کہ
محمد علی میں نپیولین کا دل اور میکالے کا قلم تھا :
یہ درست ھے کہ ان کی زندگی میں وطن ازاد نہ ہو سکا مگر ان کی جدوجہد ہماری آزادی تحریک کا روشن باب ھے اور ان کے ذکر کے بغیر ہماری ملی تاریخ کا باب ازادی مکمل نہیں ھوسکتا-
1935 میں جب لندن میں ہندوستان کے سیاسی مسائل کے حل لئے گول میز کانفرنس ہوئ تو باوجود بیماری کے اور نہ چل سکنے کے باوجود ویل چیئر پر گئے اور تاریخی خطاب فرما یا
جس سے ان کے حریت پرور جذبات کا اور تصورات کا بخوبی اندازہ ھو جاتا ہے فرماتے ہیں
: میں درجہ نوآبادیات کا قائل نہیں ہوں میں تو ازادی کامل کو اپنا مسلک قرار دے چکا ھوں -برطانیہ کا سب سے بڑا گناہ یہ ھے کہ اس نے ہندوستان کو نا مرد اور بزدل بنادیا ھے لکین اب 22 کروڑ انسانوں نے مر جانے کی ہمت پیدا کرلی ھے انھیں مار ڈالنا اسان نہیں ھے میں مریض ھوں اور بستر مرگ سے آیا ھوں اب میں اس وقت تک اپنے غلام ملک واپس نہ جاوں گا جب تک اپنے ہمراہ پروانہ روح ازادی لے کر نہ جاوں اگر تم نے ہندوستان کو آزادی نہ دی توپھر مجھے قبر کےلئے دو گز جگہ دینا ھو گی:
عزم کے پکے اور قول کے سچے انسان نے کچھ روز بعد اس غلام ملک سے دور ازاد فضاؤں میں ہزاروں میل دور اپنی جان دےدی جس پر کسی نے خوب کھا
مارا دیار غیر میں مجھ کو وطن سے دور
رکھ لی میرے خدا نے میری بے بسی کی لاج
مولانا جوہرکے بھائ مولانا شوکت علی نے کہا
: اب میں اکیلا رہ گیا ہوں مگر خدا پر بھروسہ ھے کہ وہ دیں مقدس کی حفاظت کے لئے ھزاروں محمد علی پیدا کرے گا:
دل سے اٹھی ہوئ اواز بارگاہ الہی میں مقبول ہوئ اور محمد علی جوہر کی جگہ محمد علی جناح نے لے لی اور ٹھیک سترہ برس بعد اس وقت کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان قائم کرکےد نیا کا جغرافیہ بدل دیا
مولانا محمد علی جوہر کو خراج عقیدت پیش کرتے ھوے ارتھر مورنے کھا
وہ ایک شیر دل سپاہی تھے
مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی نے کہا کہ محمد علی جوہر ان لوگوں میں سے تھےجہنوں نے اپنا سب کچھ ملت ملک اور اسلام کے لئے وقف کردیا
مولانا محمد علی جوہر کو بیت المقدس میں دفن کیا گیا جس پر علامہ اقبال نے بھر پور خراج عقیدت پیش کیا اور کسی نے خوب لکھا کہ
مارادیار غیر میں مجھے وطن سے دور
رکھ لی خدا نے میری بے بسی کی لاج