انعام الحسن کاشمیریکالمز

حق خودارادیت۔۔مسئلہ کشمیر کا واحد، پرامن اور منصفانہ حل……..انعام الحسن کاشمیری (خیال کشمیر)

قریب تھا کہ بھارت شکست وریخت سے دوچار ہوجاتا اور تاریخ کا یہ الم ناک اور افسوس ناک قضیہ جنم نہ لیتا کہ بھارت نے جنگ بندی کے لیے یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ میں درخواست گزار دی

بھارت نے 27اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں وکشمیر پر فوج کشی کی۔ ڈوگرہ فوج اور بھارتی فوج کے خلاف برسرپیکار مجاہدین تیزی کے ساتھ یلغار کرتے ہوئے سرینگر کے قریب پہنچ چکے تھے۔ آزادکشمیرکاموجودہ خطہ آزادکروالیا گیاتھا۔ لائن آف کنٹرول جن علاقوں پر قائم ہے، ان کے مختلف مقامات پر لڑائی جاری تھی۔ قریب تھا کہ بھارت شکست وریخت سے دوچار ہوجاتا اور تاریخ کا یہ الم ناک اور افسوس ناک قضیہ جنم نہ لیتا کہ بھارت نے جنگ بندی کے لیے یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ میں درخواست گزار دی تاکہ کسی طریقے سے خفت اور شرمندگی سے محفوظ رہا جاسکے۔ اس درخواست کے تسلسل میں بیلجیم نے 17جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 229ویں اجلاس میں ایک قرارداد پیش کی جس میں دونوں ممالک یعنی بھارت اور پاکستان سے حوصلے اور بردباری سے کام لینے کی تلقین کی گئی۔ اس قرارداد کی مخالفت کسی بھی رکن ملک نے نہیں کی۔ سلامتی کونسل کے اگلے یعنی 230ویں اجلاس مورخہ20جنوری میں بیلجیم کے نمائندہ کی جانب سے دوسری قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد کی خاص بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق تنازع کی چھان بین، اور حل کی جانب پیش رفت کے لیے ایک کمیشن قائم کیا گیا۔ اس کمیشن کا نام اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انڈیا و پاکستان یا یونائیٹڈ نیشن کمیشن فارانڈیا اینڈ پاکستان ہے۔ اس کے بعد سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بالترتیب06فروری، 21اپریل، 03جون، 13اگست کو قراردادیں منظور کی گئیں۔ اس طرح صرف 1948ء میں شکایت کے پہلے ہی سال میں 6قراردادیں پیش اور متفقہ طور پر منظور ہوئیں۔
05جنوری 1949کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا و پاکستان نے ایک قراردادمنظور کی۔ اس قرارداد سے قبل کمیشن نے مسئلہ کی چھان بین، حل کی جانب مثبت اور عملی پیش رفت کے لیے دونوں ممالک کی طرف سے دی گئی کئی تجاویز پر غور وفکر کیا۔ جس کے نتیجے میں کمیشن نے پانچ جنوری کو یہ قرارداد سامنے لائی۔ اس قرارداد میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا گیا اور اس کے لیے استصواب رائے کے انعقاد کے ضمن میں ضروری رہنمائی بھی واضح طور پر فراہم کردی گئی۔ پاکستان کی جانب سے اس قرارداد کی نہ صرف حمایت کی گئی بلکہ اس پر عمل درآمد کے سلسلہ میں ہر قسم کے ممکنہ تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔ بھارت نے بھی عالمی دنیا سے وعدہ کیا کہ وہ اس قرارداد پر عمل درآمد کے لیے تمام تر ضروری اقدامات بروئے کار لائے گا۔
5جنوری 1949ء کی قرارداد کو ہمارے ہاں حق خودارادیت کی قرارداد کانام دے دیا گیا ہے۔ اس قرارداد میں واضح طور پر ذکر ہے کہ کشمیری عوام کے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کے لیے استصواب رائے کا انعقاد عمل میں لایاجائے گا۔ مزید یہ کہ جس وقت کمیشن مناسب سمجھے گا کہ ریاست کے حالات پرامن ہوگے ہیں اور اب صاف وشفاف اور غیرجانبدارانہ استصواب رائے کے انعقاد کے لیے فضا سازگار ہے، تو کمیشن اقوا م متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو اس کی بابت آگاہ کرے گا۔ سیکرٹری جنرل استصواب رائے کا ایڈمنسٹریٹرمقرر کرے گا جو سارے عمل کی مکمل نگرانی کرے گا۔ اسی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ 15اگست1947ء کے بعد ریاست جموں وکشمیر میں داخل ہونے والا ہر غیرریاستی فرد، ریاست چھوڑنے کا پابند ہوگا۔ چنانچہ اس قرارداد کے یہ نکات استصواب رائے، ایڈمنسٹریٹر، اور غیرریاستی افراد کے انخلا کی شرط وغیرہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ گویا یہ قرارداد اس سے قبل اور بعد کے ادوار میں منظور کی جانے والی قراردادوں کے لیے بنیاد کا کام فراہم کرتی ہے۔ 1948ء سے 1971ء تک اقوا م متحدہ کے پلیٹ فارم سلامتی کونسل اور یواین سی آئی پی میں مجموعی طور پر 27قراردادیں منظور کی گئیں۔ ان تمام قراردادوں میں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو بنیاد تسلیم کرتے ہوئے اس پراقدامات کی عمارت تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا۔
بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں ہمیشہ تاخیری حربے اختیار کرتا رہا تاکہ وہ ریاست پر اپنا غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ مستحکم کرتا چلاجائے۔ اس روش نے ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیریوں کو عقوبت خانے کا قیدی بنا رکھاہے۔ پانچ اگست کے اقدام کے بعد بھارت نے برملا اس امر کا اظہار کیا تھا کہ اس نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں حریت پسندی کی تحریک پر قابوپالیا ہے۔بھارت کا یہ اعلان دنیا کو دکھانے کے لیے تھا۔ اس کے برعکس زمینی حقائق یہ ہیں کہ ریاست میں نہ صرف روزانہ کی بنیاد پر معصوم اور نہتے شہریوں کو درانداز قراردے کر شہید کیاجارہاہے، بلکہ نوجوانوں کو گرفتارکرکے ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ زخموں پر نمک چھڑکنے کا محاورہ ہم زبانی سنتے آئے ہیں، لیکن اب اسے مقبوضہ جموں وکشمیر میں قیدیوں کے زخموں پر سرخ مرچ کے ساتھ وافر مقدار میں چھڑک کر اذیت میں دوہرا اضافہ کیاجارہاہے۔ پچھلے دنوں بھارتی فوجیوں نے معصوم کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرکے ان پر تشدد کی انتہا کردی اور پھر ان کے ساتھ بداخلاقی کرتے ہوئے زخموں پر سرخ مرچیں چھڑکتے ہوئے اس کی ویڈیو وائرل کردی۔ اس کا مقصد تحریک سے وابستہ نوجوانوں کے دلوں میں خوف پیدا کرنا تھا۔ ایسے گھناؤنے اقدامات بھارت اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ کرچکا ہے لیکن اسے ہربار سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ خواتین، جن میں معصوم بچیاں اور عفت مآب بوڑھی خواتین تک شامل ہوتی ہیں، کے ساتھ درندگی کو تو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجارہاہے۔ ایسے خوفناک حربے بھی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو ماند نہیں کرسکے۔
5جنوری1949ء کو منظور ہونے والی قرارداد پر عمل درآمد پون صدی سے موخرچلاآرہاہے۔ مہذب دنیا کے اس وعدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بھارت کو مجبور کرنا اور اسے استصواب رائے کے انعقاد کے ضمن میں ضروری اقدامات بروئے کا رلائے جانے پر تیار کرنا ضروری ہے۔ بھارت غیرریاستی افراد کو مقبوضہ کشمیر میں آبادکرتے ہوئے انھیں ڈومیسائل جاری کررہاہے۔ اس وقت تک 6ملین سے زائد ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارت استصواب رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے اس طرح کے غیرآئینی اور غیرقانونی اقدامات کررہاہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں صریحا ً درج ہے کہ 15اگست کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والے کسی بھی اقدام،عمل یا فعل کو غیرقانونی تسلیم کیاجائے گایعنی جبب بھی استصواب رائے ہوگا تو وہ 15اگست سے قبل کے حالات کی روشنی میں منعقد ہوگا۔ عالمی دنیا اس امر کو بھی یقینا ملحوظ رکھے گی۔ چنانچہ بھارت کے اس نوعیت کا اقدام یقینا ایک دن اس کے گلے کی پھانس بن کر رہ جائے گا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل حق خودارادیت ہی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button