الیکشن میں تاخیر کیوں ؟؟…..پیر مشتاق رضوی
ایوان بالا میں صرف 14 اراکین موجود تھے اور کورم بھی پورا نہیں تھا سینٹ کا اجلاس جاری تھا کہ چیئرمین سینٹ نے ضابطے کی کاروائی اچانک معطل کرکے آزاد سینٹر دلاور خان کو قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی
الیکشن ملتوی کرنے کے بارے سینٹ سیکرٹریٹ نے قرارداد کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیاہے نوٹیفکیشن سینٹ سیکرٹریٹ کے جوائنٹ سیکرٹری نے جاری کیا جبکہ اس قرارداد کی منظوری کی نقول صدر مملکت، وزیراعظم پاکستان، الیکشن کمیشن ،وزارت قانون و انصاف اوردیگر متعلقہ محکموں کو بھی ارسال کردی گئیں ہیں کہ الیکشن کمیشن ملکی صورتحال کے پیش نظر فوری الیکشن شیڈول کو تبدیل کرے۔سینٹ سیکرٹریٹ کی وزارت پارلیمانی امورکو فوری کارروائی کرنے اور دو ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہےگزشتہ روز سینٹ آف پاکستان میں انتخابات ملتوی کرانے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی اس قرار داد کی منظوری کے وقت ایوان بالا میں صرف 14 اراکین موجود تھے اور کورم بھی پورا نہیں تھا سینٹ کا اجلاس جاری تھا کہ چیئرمین سینٹ نے ضابطے کی کاروائی اچانک معطل کرکے آزاد سینٹر دلاور خان کو قرارداد پیش کرنے کی اجازت دی جس میں کہا گیا کہ ملک میں شدید سردی اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو سیکیورٹی الرٹس کی بنیاد پر الیکشن ملتوی کیے جائیں ایوان میں 14 میں سے 12 اراکین نے اس قرارداد کی حمایت کی مسلم لیگ نون کے سینیٹر افنان اللہ اور نگران وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ اجلاس میں موجود پی ٹی ائی اور پیپلز پارٹی کے دونوں اراکین اس قرارداد پر خاموشی اختیار کی سینیٹر دلاور خان نے اپنی اس قرارداد میں کہا تھا کہ سکیورٹی حالات انتہائی خراب ہیں موسم سرما انتہا پر ہے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں حالات کشیدہ ہیں اور دہشت گردی کے خطرات ہیں اس لیے 8- فروری میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کیا جائے،اس طرح سینٹ کے 12 ووٹوں نے فی الوقت ملک کے 13 کروڑ ووٹرز کو حق رائے دہی سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے سینٹ کی اس منظور کردہ قرارداد پر الیکشن کمیشن اف پاکستان نے واضح موقف دیا کہ عام انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے جبکہ سینیٹ کی قراد کا الیکشن شیڈول پر کوئی اثر نہیں پڑے گاسپریم کورٹ کے احکامات کے علاوہ کوئی احکامات الیکشن شیڈول پر اثر انداز نہیں ہو سکتے،ترجمان ای سی پی کے مطابق سینٹ انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد سپریم کورٹ کے علاوہ کوئی حکم انتخابی شیڈول کو متاثر نہیں کر سکتا اور انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے الیکشن کمیشن کے ترجمان کے ادھر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا بھی یہی کہنا ہے کہ سینٹ میں منظور کردہ قرارداد غیر آئینی اور غیر قانونی ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہین اور عام انتخابات 8- فروری کو ہی ہو ں گے جماعت اسلامی کے مرکزی امیر حافظ سراج الحق نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ یہ قرارداد ملک و قوم کے خلاف ایک سازش ہے اور وقت مقررہ پر ہی الیکشن ہونے چاہیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے یہاں تک کہا ہے کہ قاضی قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور دنیاکا کوئی بھی ادارہ قرارداد منظور کر لے لیکن الیکشن 8 فروری کو ہوں گے مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ الیکشن وقت مقررہ پر ہوں گے انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی ائی انتخابات کو موخر کرانا چاہتی ہے اور اس سے پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ پٹیشن دائر کر کے الیکشن شیڈول کو رکوانے کی کوشش کی گئی تھی
اب جب کہ جماعت اسلامی پاکستان کے سینیٹر مشتاق احمد خان کی طرف سے بھی شیڈول کے مطابق وقت مقررہ پر الیکشن کرانے کے بارے سینٹ میں قرارداد جمع کرائی گئی ہے
واضح رہے کہ چیف جسٹس اف پاکستان قاضی فائز عیسی نے 8 فروری کے الیکشن کی تاریخ کو پتھر پر لکیر قرار دیا تھا جبکہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اپنی دستخط سے اٹھ فروری کو باقاعدہ عام انتخابات کرانے کے احکامات جاری کیے سینٹ میں الیکشن کو ملتوی کرانے کی قرارداد کے پس پردہ کیا مقاصد ہیں؟ اس کے بارے عوام میں غیر یقینی اور ہیجان خیزی پیدا کی گئی ہے اور چیف جسٹس اف پاکستان کو بھی الیکشن کی مقررہ تاریخ کے حوالے سے ڈھکے چھپے انداز میں مخصوص پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے اور ملک میں الیکشن کے بارے ملک انتشار پھیلنے کی مذموم سازش ہے
درحقیقت انتخابات ملتوی کرنے سے ملک میں معروضی حالات پیدا ہو سکتے ہیں اور اس حوالے سے قومی انتشار پیدا ہوگا ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا اس سے قبل بھی انتخابی حلقوں کی تشکیل پر اعتراضات کی بھر مار کی گئ تھی اور عدالتوں میں بڑی تعداد میں رٹ پٹیشنز دائر کی گئیں چونکہ الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن کا باقاعدہ شیڈول جاری کر دیا گیا تھا جس پر عدالت عدلیہ نے تمام ماتحت عدالتوں کو انتخابی حلقوں کی تشکیل کے بارے کوئی فیصلہ دینے سے روک دیا اور الیکشن کی حتمی تاریخ اور شیڈیول کو یقینی بنایا تاکہ الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے ملک میں غیر یقینی صورتحال کا سدباب کیا جا سکےجبکہ ایک منتخب حکومت کو بحرانوں سے نکال سکتی ہے لیکن الیکشن میں تاخیر چاہنے والے عناصر بدستور ملک کو بحرانوں کا شکار رکھناچاہتے ہیں پاکستان کو دہشت گردی کے علاوہ معاشی مشکلات اور امن و امان کے گھمبیر مسائل کا سامنا ہے جمہوری استحکام کے بغیر ان مشکلات پر قابو پانا ناممکن ہے جمہوری اور سیاسی استحکام کے لیے بروقت انتخابات ناگزیر ہیں اس لئے جماعت اسلامی نے الیکشن کے التواء کو قوم اور ملک کے خلاف ایک سازش قرار دیا سینٹ میں یہ قرارداد منظور کرانے کے بعد سوشل میڈیا پر مسلم لیگ ن اور پی ٹی ائی کی طرف سے دو طرفہ الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا سینٹ میں قرارداد کی منظوری کے فورا بعد پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا کہ مسلم لیگ ن الیکشن سے فرار چاہتی ہے حالانکہ سینٹ کے اجلاس میں مسلم لیگ کے سینیٹر افنان اللہ خان نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور پی ٹی ائی کا یہ الزام بلا جواز دکھائی دیتا ہے اگر مسلم لیگ واقعی انتخابات میں التوا چاہتی تو قائد مسلم لیگ میاں نواز شریف بھی وطن واپسی میں تاخیر لگاتے اور وہ قبل از وقت ملک میں نہ آتے مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے بھی جوابی الزام لگایا ہے کہ پی ٹی ائی کی قیادت بروقت الیکشن نہیں چاہتی اور اس سے قبل پی ٹی آئی نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے ذریعے الیکشن شیڈول کو معطل کرنے کی بھی کوشش کی گئی الزام بازی کی سیاست بھی ملک میں جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر سکتی ہے اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اس قرارداد سے قبل الیکشن ملتوی کرانے کے لیے جواز پیش کرتے رہے کہ ملک میں خصوصا کے پی کے میں جمعیت علماء اسلام کو سکیورٹی تھریٹسں ہیں اور یوں جے یو آئی کو لیول پلینگ فیلڈ حاصل نہیں ہے اور موسم کی شدت بھی الیکشن کے لیے نامناسب ہے اس بناء پر الیکشن ملتوی کیے جائیں اس مطالبے کے پس منظر میں مولانا فضل الرحمان شاید سیاسی طور پر تنہائی کا شکار ہیں مسلم لیگ ن سے ان کا اشتراک عمل ضرور ہے لیکن مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت کے درمیان واضح سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا کوئی مؤثر لائحہ عمل طے نہیں پایا جا سکااسی طرح مولانا فضل الرحمان پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے بھی سیاسی روابط نہ ہیں اور فضل الرحمان کا دیگر سیاسی جماعت سےکوئی سیاسی اور انتخابی اتحاد سامنے نہیں آیا ہے دھشت گردی کے ممکنہ خدشات کے پیش نظر بھی مولانا فضل الرحمن کو یہ اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں ان کو خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور شاید انتخابی نتائج شاید ان کی من پسند نہ ہو اور آئندہ کسی بھی حکومت میں انہیں خاطر خواہ حصہ نہ مل سکے اس لیے وہ انتخابات میں تاخیر چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ واضح لائحہ عمل اختیار کر سکیں اور انہیں الیکشن کی تیاری کے لیے مزید وقت مل سکے سیاسی قوتوں کے اپنے اپنے تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں الیکشن کو مؤخر کرانے والے عناصر ریاست کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور ایک سازش کے تحت انتخابات کی تاخیر کے تمام تر الزامات اسٹیبلشمنٹ پر عائد کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں ملک میں ہر کمی کوتاہی کا الزام سیکورٹی اداروں پر لگانا اسی سازش اور ہائبرڈ وار کا تسلسل ہے ملک دشمن عناصر اورغیر جمہوری طاقتیں قومی اداروں کو کمزور کر کے ملک کی سلامتی کو تباہ وبرباد کرنا چاہتے ہیں جبکہ ایک سیاسی جماعت پر یہ بھی الزام عائد رہا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ملک میں محازآرائی کی سیاست سے اداروں پر شدید دباؤ بڑھایا گیا اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کا شکار کیا گیااور یہ بھی الزام ہے کہ اسی سیاسی جماعت کی کوششیں رہی کہ ملک میں مارشل لگ جائے اور اب بھی یہی کوششیں جاری ہیں کہ ملک میں سیاسی اور جمہوری عمل کو سبوتاژ کیا جائے ملک میں ایمرجنسی نافذ ہو اور سیکیورٹی ادارے عالمی سطح پر ایک سوال بن جائیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ الیکشن کے التواء سے ملکی یکجہتی کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور نگران سیٹ اپ کے ذریعے ریاست کو چلانے کے لیے عارضی بندوبست کیا گیا ہے جو کہ کبھی پائیدار نہیں ہو سکتا اور نگران حکومت پر زیادہ دیر تک عوام بھی اعتماد قائم نہیں رکھ سکتے اور وطن دشمن عناصر بھی ملک میں سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو طول دے سکتے ہیں تمام چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے بروقت الیکشن کرا کے ملک کی باگ ڈور عوام کےمنتخب نمائندوں کے حوالے کی جانی چاہیے حکومت ،ملک ،عوام اور سیاسی نظام کسی بھی ریاست کی بنیادی عناصر ہیں جبکہ جمہوری نظام سے کسی ریاست کو مضبوطی اور استحکام حاصل ہوتا ہے جمہوریت میں حکومت عوام کے لیے عوام ،میں سے اور عوام کی ہوتی ہے جمہوری نظام میں پائیدار حکومت شہریوں کے آزادانہ اور منصفانہ حق رائے دہی سے تشکیل پاتی ہے جبکہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے اور ملکی معاملات کو بہ احسن چلانے کے لیے منتخب حکومت لازم ہے ریاست کے دیگر ستون مقننہ عدلیہ اور انتظامیہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر جمہوری نظام کو مضبوط بناتے ہیں یہ بھی تسلیم شدہ امر ہے کہ پاکستان کا وجود ووٹ کی بنیاد پر عمل میں ایا اور ووٹ کی طاقت سے ہی پاکستان میں سیاسی استحکام سے آسکتا ہے اس لیے الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق مقررہ وقت پر الیکشن لازم ہیں