نہ تیرا سندھ ،نہ میرا پنجاب، ھم سب کا ہے پاکستان!!…….پیر مشتاق رضوی
لاہور قائد عوام کا شہر ہے" بلاول بھٹو نے لاہور میں ڈیرے ڈالے رکھے اور لاہوریوں پر ڈورے بھی ڈالے اور پرانے مردے اکھاڑتے ہوئے وہ میاں نواز شریف کا نام لیے بغیر انہیں جنرل ضیا کی پیداوار کہہ رہے ہیں
"لاہور کسی بھی بیوپاری یا کھلاڑی کا نہیں لاہور بھٹو کا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے "چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا یہ بھی کہنا ہےکہ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے لاہور ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی کبھی جنرل ضیا نے کبھی جنرل فیض نے لاہور پر من پسند افراد کو مسلط کیا لوگ پوچھ رہے ہیں کہ ہم لاہور میں کیوں آئے ؟ ” لاہور قائد عوام کا شہر ہے” بلاول بھٹو نے لاہور میں ڈیرے ڈالے رکھے اور لاہوریوں پر ڈورے بھی ڈالے اور پرانے مردے اکھاڑتے ہوئے وہ میاں نواز شریف کا نام لیے بغیر انہیں جنرل ضیا کی پیداوار کہہ رہے ہیں اور چوتھی مرتبہ وزیراعظم بنانے کا بتا رہے ہیں بلاول بھٹو زرداری شاید یہ بھول گئے کہ جنرل ایوب خان نے ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید کو سیاست میں متعارف کرایا اور اپنی کابینہ کا وزیر خارجہ بنایا جبکہ میاں محمد نواز شریف وہی ہیں جنہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہیدکے ساتھ”میثاق جمہوریت” کیا اور 2008ء سے 2013ء تک بلاول بھٹو زرداری کے والد محترم جناب آصف زرداری کے ساتھ شریک اقتدار بھی رہے یہ بھی تاریخ بتاتی ہے کہ جناب آصف زرداری نے میاں محمد نواز شریف کو تیسری بار وزیراعظم بنانے کے لیے راہیں آسان کیں اور ان کے تیسری بار وزیراعظم کی نااہلی کی رکاوٹ کو پارلیمنٹ سے ختم کرا کے وزیراعظم بننے کا موقع فراہم کیا
بنظر غائر دیکھا جائے تو بلاول بھٹو زرداری میاں نواز شریف کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور حالیہ انتخابات کے سلسلے روز اول سے بلاول زرداری بھٹو میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی باتیں تکرار کے ساتھ کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کو اس بار وزیراعظم بنا کر ہی دم لیں گے
آٹھ فروری کے الیکشن میں کوئی زیادہ دیر نہیں اور اس کے نتائج ہی بتائیں گے کہ اقتدار کس کو ملتا ہے؟ ویسے تو سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں اور بقول جناب آصف زرداری ‘ ائندہ مخلوطحکومت” بنے گی کیونکہ کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکے گی گمان ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو پھر سے شریک اقتدار ہو جائیں اور 2008،ءکے سیاسی تجربات کو دہرایا جائے اور پی پی مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت سازی کرے ! انتخابی مہم کے دوران ان حریفوں کے مابین یہ نورا کشتی بھی ہو سکتی ہے ؟ اس کے باوجود ہر دو پارٹیوں کی قیادت ایک دوسرے کے صوبوں پر سبقت لے جانے کے لیے متحرک ہیں مسٹرزرداری” تخت پنجاب "پر قبضہ کرنے کے لیے بھرپور انتخابی مہم چلا رہے ہیں شریف برادران پنجاب سے سندھ کا رخ کر چکے ہیں شریف برادران کی سندھ میں سیاسی دراندازی کو پی پی کی قیادت پہلے اس معاملے کو آسان لے رہی تھی لیکن بعد ازاں مسلم لیگ ن کے ایم کیو ایم کے ساتھ انتخابی ایڈجسٹمنٹ اور سندھ کے الیکٹیبلز کو ساتھ ملا نے پر پی پی کی قیادت بڑی سیخ پا دکھائی دیتی ہے مسلم لیگ ن سندھ میں پی پی کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لیے سندھ کی دیگر سیاسی قوتوں کی بھی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہے
سابق وزراء اعظم میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے مابین "میثاق جمہوریت” کے بعد ان پر باریاں لینے کے الزامات بھی لگتے رہے اس کے ساتھ” پنجاب میرا” اور "سندھ تیرا” یعنی دوسرے لفظوں میں” ادھر ہم ادھر تم” کی روایتی پالیسی کو دو طرفہ طور پر قبول کر لیا گیا 2008ء کے بعد مسلم لیگ ن سندھ سے مکمل طور سیاسی لا تعلق نظر آتی ہے اور”سندھ کارڈ "پاکستان پیپلز پارٹی کی ہمیشہ سیاست رہی ہے اسکے علاوہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے سندھ کو مکمل طور پر اپنی سیاسی جاگیر بنایا حالانکہ جنرل ضیاء نے قائد عوام کو پھانسی دینے کے بعد پیپلز پارٹی کے سیاسی وجود کے خاتمے کے لیے آمرانہ اقدامات کیے ایم کیو ایم کو جنم دیااور بے لگام طاقت ور بنایا جام صادق جیسے غیر سیاسی شخص کو وزیر اعلی سندھ مسلط رکھا جناب آصف زرداری نے اپنے دور صدارت میں صوبوں کو خود مختار بنانے کے لیے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے سندھ کو اپناسیاسی مضبوط قلعہ بنایا اور پھر اٹھارہویں ترمیم کی بدولت سندھ میں مستقل طور پر قلعہ بند ہو کے رہ گئے اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا گیا یعنی پنجاب مسلم لیگ کے حوالے کر دیا اور یوں پنجاب میں پیپلز پارٹی کےسیاسی خلاء کو پی ٹی آئی نے پر کیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں ناقابل تلافی نقصان پہنچا 2018ء کی پنجاب اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ایک درجن سے زائد ممبران اسمبلی تھے پاکستان پیپلز پارٹی سندھ میں سمٹ کر رہ گئی جنرل ریٹائرڈ مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور ان کا سارا خاندان
نااہل بنا کر سیاست سے آؤٹ کر دیا گیا لیکن جناب آصف زرداری سیاسی تدبر کی بدولت اپنے سیاسی قلعہ سندھ میں محفوظ رہے اور اپنے خاندان کے افراد کو پارلیمنٹ کا ممبر بنا کر نااہلی سے بھی محفوظ رکھا سندھ مکمل طور پر صدر آصف زرداری کے سیاسی تصرف میں رہا لیکن پیپلز پارٹی کے چار دہائیوں سے ادوار اقتدار میں سندھ کی ترقی اور خوشحالی ہمیشہ سوال بنی رہی اس دوران
"شہرقائد” بربادی کی حد تک پہنچ گیا سندھ پر اپنا راج برقرار رکھنے والے منی پاکستان کا انتظام نہ سنبھال سکے اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا جو پیپلز پارٹی منی پاکستان کا نظام وانتصرام نہ چلا سکی وہ بحرانوں میں گھرے پاکستان کو چلا پائے گی ؟اور یہ سوال پوری قوم کے لیے انتہائی اھمیت کا حامل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلا شرکت غیرے 40 سال سے زیادہ حکمرانی کی
اس طرح پنجاب کی سیاست 35 سال تک شریف برادران کے حوالے تھی نواز شریف اور میاں شہباز شریف ، پنجاب کے بعد دیگرے متعدد بار وزیر اعلیٰ بنے جنرل ریٹائرڈ مشرف کے دور اقتدار میں پنجاب سے شریف برادران کی سیاسی اجارہ داری کو ختم کرنےکےلیے مسلم لیگ ن کو دھڑوں میں تقسیم کیا گیا مسلم لیگ ن سے نکلنے والے ق کے پرویز الہی کو وزیرعلی کر پنجاب کا چوہدری بنایا گیا اس سے قبل منظور وٹو ،میاں اظہر اور نکئی کو بھی تخت پنجاب پر بٹھایا گیا عمرانی دور اقتدار میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اکثریت کو تبدیل کر کے غیر مضر سیاسی شخصیت عثمان خان بزدار کو وزیراعلی’ کی مسند پر بٹھایا گیا اس دوران پی پی پنجاب سیاسی طور پر الگ تھلگ رہ کر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی لیکن عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد جناب آصف زرداری نے پنجاب کو ایکبار پھر شریف برادران کے حوالے کرنے کے لئے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا شومئی قسمت عدلیہ نے شہباز زرداری کی پلٹی ہوئی اس بازی کو ناکام بنا دیا اور ایک مرتبہ پھر چوہدری پرویز الہی تخت پنجاب کی مالک بن بیٹھے
قائد مسلم لیگ میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے ساتھ "ادھر ہم اور ادھر تم "والی پالیسی کو موقوف کر دیا گیا اور شریف برادران نے اپنی سیاست کا رخ سندھ کی جانب موڑا تو جواباً جناب آصف زرداری نے بھی پنجاب میں مورچے لگانا شروع کر دیے جناب آصف زرداری گزشتہ ہفتے تین دن تک جنوبی نے پنجاب کے ہیڈ کوارٹر ملتان میں اپنے ڈیرے ڈالے رکھے لیکن جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو امیدواروں کی کمی کا سامنا ہے اسی لئے ان کی ملتان آمد کوئی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی اور سیاسی مایوسی کے ساتھ جناب زرداری کو جنوبی پنجاب سے واپس جانا پڑا۔۔۔
حالیہ انتخابات کے پیش نظر پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے تواتر کے ساتھ کراچی کے متعد دورے کیے اور وہ تاحال ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 242 سے میاں شہباز شریف خود بھی قومی اسمبلی کے امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت اندرون سندھ میں جمعیت علماءاسلام، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے علاؤہ پی پی کی مخالفت سیاسی قوتوں کے ساتھ مل کر انتخابی حکمت عملی بنا رہی ہےکہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دیا جائے، پیپلز پارٹی کی قیادت پنجاب میں انتخابی زور لگانے کی بجائے سندھ تک محدود ہو جائے پنجاب میں مسلم لیگ ن اپنی اکثریت باآسانی حاصل کر سکےراقم نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ "تخت پنجاب پر قبضہ جمانے والا ہی پاکستان کا حکمران بنتا ہے” پنجاب یا سندھ کسی ایک پارٹی یا خاندان یا کی سیاسی جاگیر نہیں سندھ کارڈ یا تخت پنجاب کی سیاست کو اب ختم ہونا چاہیے پنجاب کی بالادست سیاست کی وجہ سے دیگر صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہوا جس کا ازالہ ضروری ہے تاکہ صوبوں کے مابین برابری اور ہم آہنگی کی سیاست کو فروغ دیا جائے
سندھ میں مسلم لیگ کے آمد اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کی درآمد” دیر آئد ،درست آئد ” ہے اور ان دونوں سیاسی جماعتوں کو ہر صوبے میں اپنی سیاسی تنظیم سازی اور انتخابی مہم چلانے کا حق ہے ملک گیری کا دعوی کرنے والی بڑی سیاسی سیاسی جماعتیں پاکستان کے ہر علاقے میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتی ہے پاکستان کی سیاسی پارٹیاں وفاق کی سیاست کریں سیاسی پارٹیاں اپنے وجود کو حقیقی طور پر ملک گیر پارٹی بنائیں یہ وقت کا تقاضا ہے کہ سندھی اور پنجابی سیاست کرنے کی بجائے پاکستان کی نمائندگی کرنے کا حق ادا کریں پاکستان کا ہر شہری اپنے ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کے کرے اور ووٹ کی طاقت سے یہ ثابت کریں کہ "سندھ تیرا ہے نہ پنجاب میرا” بلکہ ہم سب کا ہے پاکستان پاکستان زندہ باد !!!
کہتی ہے یہ راہِ عمل
آؤ ہم سب ساتھ چلیں
سورج ہے سرحد کی زمیں
چاند بلوچستان ہے
دھڑکن ہے پنجاب اگر
دل اپنا مہران ہے
میں بھی پاکستان ہوں
تو بھی پاکستان ہے