ہوائی جہاز کے سفر کو دنیا میں محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہوائی جہاز کے دو انجن ہیں اور ایک دوران پرواز کام کرنا چھوڑ جائے تو جہاز ایک انجن پر بھی اڑان قائم رکھ سکتا ہے۔ دونوں انجن فیل ہو جائیں تو پھر بھی جہاز ہوا کے دوش پر ’گلائیڈ‘ کر کے باحفاظت کسی محفوظ مقام پر اتارا جا سکتا ہے۔
غرض یہ کہ ہوائی جہاز کو کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو تو پائلٹ اسے زمین تک ضرور لے آتا ہے۔ لیکن اگر جہاز ہوا میں ہی دو ٹکڑے ہو جائے تو پھر کسی شریف آدمی کی سرکاری دفتر میں پھنسی ہوئی فائل کی طرح اس کا کوئی حل نہیں ہوتا۔
فلم ’سوسائٹی آف دی سنو‘ 1972 میں ہونے والے ایک ایسے ہی فضائی حادثے پر مبنی ہے جس میں جہاز ہوا میں ہی دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ یہ فلم یوراگوئے کے مصنف پابلو وائریسی کی کتاب ’سوسائٹی آف دا سنو‘ سے ماخوذ ہے۔
دنیا بھر میں ہونے والے فضائی حادثوں میں 80 فیصد غلطی انسان کی اور 20 فیصد غلطی مشین یعنی جہاز کے پُرزوں کی تکنیکی خرابی کی مانی جاتی ہے۔
1972 میں یوراگوئے ایئر فورس کی پرواز 571 کا حادثہ بھی شریک ہوا باز لیفٹیننٹ کرنل دانتے ہیکٹر کی غلطی سے ہوا جب وہ یہ سمجھے کہ پہاڑی سلسلہ ختم ہو گیا ہے اور اب جہاز کو لینڈنگ کے لیے اتارنا چاہیے۔ خراب موسم، گہرے بادل اور پہاڑی علاقے میں پرواز کرنے کے تجربے کی شدید کمی ہونے کے باعث پرواز پہاڑ سے ٹکرا گئی اور جہاز کے ٹکڑے ہو گئے۔
فلم کی کہانی اکتوبر 1972 سے شروع ہوتی ہے جہاں یوراگوئے کے شہر مونٹی ویڈیو کے رگبی کلب کے کھلاڑی ایک نمائشی میچ کے لیے چلی کے شہر سانتیاگو جانے کے لیے پُرجوش ہیں۔ کلب کی طرف سے یوراگوئے ایئر فورس کا ایک طیارہ چارٹر کیا جاتا ہے جس میں ٹیم کے 19 کھلاڑیوں سمیت 45 لوگ سوار ہوتے ہیں۔
13 اکتوبر 1972 کو اینڈس کے پہاڑی سلسلے پر محو پرواز جہاز پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے پہاڑ سے ٹکرا جاتا ہے جس کے نتیجے میں جہاز کے پر اور پچھلا حصہ ٹوٹ کر فضا میں بکھر جاتے ہیں۔
جہاز کا اگلا حصہ 11 ہزار 700 فٹ کی بلندی پر موجود ایک بے نام گلیشیئر پر جا کر گرتا ہے جس کو بعد میں آنسوؤں کا ’گلیشیئر‘ نام دیا گیا تھا۔ کچھ مسافر تو موقع پر ہی ہلاک ہو جاتے ہیں اور باقی بچ جانے والے مسافر اپنی بقا کی جنگ لڑنا شروع کرتے ہیں جس میں ان کا سب سے بڑا دشمن میلوں تک برف کی چادر اوڑھے وہ پہاڑی سلسلہ ہے جہاں ان کا جہاز گرا ہے۔
بھوک، شدید سرد موسم، برفانی تودوں اور سرد بیاباں میں بے یار و مددگار مر جانے کے خوف سے نبرد آزما ایک ٹوٹے ہوئے جہاز کے حصے کو پناہ گاہ بنائے ان مسافروں کے پاس بچا لیے جانے کی امید کے علاوہ اور کچھ نہیں بچا۔ اس امید کو قائم رکھنے اور زندہ رہنے کے لیے وہ کیا فیصلے کرتے ہیں اور وہ ان کی آنے والی زندگی پر کیا اثر ڈالیں گے، اس کے لیے فلم ملاحظہ فرمائیں۔
اس فلم کے ہدایت کار جے اے بیونا ہیں جو اس سے پہلے ’دا اورفنیج‘ اور ’جراسک ورلڈ‘ جیسی مشہور فلموں کی ہدایات دے چکے ہیں۔ اس فلم کو بنانے کے دوران ہدایت کار بیونا اس حادثے میں بچ جانے والے رگبی ٹیم کے کھلاڑی ’روبرٹو کانیسا‘ سے بھی رابطے میں تھے جنہوں نے اس حادثے سے متعلق بیونا کو ذاتی معلومات پر مبنی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ روبرٹو کی عمر اس وقت 70 سال سے تجاوز کر چکی ہے اور وہ اس حادثے کو ایک برا خواب قرار دیتے ہیں۔
اس فلم کی ریٹنگ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے سات اعشاریہ 9 ہے جب کہ نیٹ فلکس پاکستان پر یہ نمبر ون پر دیکھی جا رہی ہے۔ فلم ہسپانوی زبان میں ہے لیکن انگریزی ڈبنگ کے ساتھ نیٹ فلکس پر دیکھی جا سکتی ہے۔
اس فلم کے لیے تنقید نگاروں کی پسندیدگی کا اظہار 71 فیصد رہا ہے جب کہ اگلے آسکر ایوارڈ کے لیے بھی اس فلم کو 15 بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا ہے۔
یہ فلم ’سروائیول‘ (بقا) کی درجہ بندی میں آتی ہے۔ اس فلم میں کچھ ایسے مناظر بھی ہیں جو شاید ناظرین کے لیے دیکھنا مشکل ہوں لیکن ایسی فلموں میں واقعات کو حقیقت سے قریب تر دکھانے کے لیے یہ ضروری ہوتے ہیں۔
فلم کی کہانی رگبی ٹیم کے کھلاڑی نوما کی پس پردہ آواز میں بیان کی جاتی ہے جو بقا کی اس جنگ میں زندگی سے متعلق اہم سبق دیتا سنائی دیتا ہے کہ ’آپ ایسی صورت حال میں کیا فیصلہ لیں گے کہ جس وقت دنیا سمجھے کہ آپ مر چکے ہیں اور موت آپ کو زندگی سے زیادہ آسان نظر آئے؟ لیکن یہ غلط ہے۔ اگر آپ کے پاس صرف زندہ رہنا ہی آخری حل ہے، تو آپ کو زندہ رہنا ہے۔‘