پیر مشتاق رضویکالمز

"آواز دوست ” …….پیرمشتاق رضوی

عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی ائی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کے لیے کوئی ڈیکلریشن اور سرٹیفیکیٹ نہ جمع کرائے پی ٹی ائی کے 14 اراکین نے انٹر پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا پشاور ہائی کورٹ نے ان اراکین کو مسترد کر دیا تھا

بلا اور بلے باز بھی نہیں ۔۔!!
سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس کا فیصلہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کرلی اور تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دیا جبکہ پشاور ہائیکورٹ کا تحریک انصاف کا "بلا نشان” بحال کرنے کا فیصلہ بھی کالعدم قرار دینے کافیصلہ جاری کیا عدالت عالیہ کے فیصلے کے مطابق پی ٹی ائی نے انٹرا پارٹی الیکشن کے انعقاد کے لیے کوئی ڈیکلریشن اور سرٹیفیکیٹ نہ جمع کرائے پی ٹی ائی کے 14 اراکین نے انٹر پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا پشاور ہائی کورٹ نے ان اراکین کو مسترد کر دیا تھا جبکہ ان اراکین نے اپنی پارٹی سے وابستگی ثابت کی ہے اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے بار بار کہا کہ الیکشن کرا لو یہ نہیں ہو سکتا کہ الیکشن نہ ہو اور انتخابی نشان مل جائے ،سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے بعد تحریک انصاف کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے عام انتخابات 2024ء میں حصہ لے سکتے ہیں
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدالت عالیہ کا یہ حالیہ فیصلہ ائینی اور قانونی ہے جس کے مطابق تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کے شواہد اور ثبوت پیش نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف انتخابی نشان بلے سے خود ہی محروم ہو گئی ہے الیکشن شیڈیول کے مطابق نشان کی الاٹمنٹ کے اخری مرحلے کے اخری لمحات میں عدالت عالیہ کے رات گئے کےفیصلے سے تحریک انصاف کے تمام تر نامزد امیدوار آزاد ہو گئے ہیں اس طرح حقیقی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو بھی آزادی مل گئی ہے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق اگر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ بحال کر دیا جائے تو انٹرا پارٹی الیکشن کو ختم کرنا پڑے گا اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے بلے کے نشان کو واپس کیا تھا تحریک انصاف کے وکلاء بھی بڑے پر امید تھے کہ عدالت عالیہ سے وہ بلے کے انتخابی نشان کو بحال کرا لیں گے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن کے قواعد ضوابط کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے 8 فروری کے انتخابات سے "کپتان بلے "سمیت مائنس ہو چکے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے بیرسٹر گوہر اور حامد خان کا دعویٰ تھا کہ تحریک پاکستان کے انٹرا پارٹی الیکشن جیسے کسی پارٹی نے الیکشن نہیں کرائے جبکہ بیرسٹر گوہر عدالت عالیہ میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پارٹی معاملات کے میں عمران خان نیازی کا حکم حرف آخر ہوتا ہے سب ان کے حکم کو تسلیم کرتے ہیں جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے اس کے علاوہ تحریک انصاف کی سیکنڈ لائن قیادت نے سمجھا تھا کہ عمران خان کی ہدایت پر ہی عمل کر کے ہی انٹرا پارٹی الیکشن کے تقاضے پورے ہو چکے ہیں اسی لیے چمکنی پشاور میں کپتان کے نامزد کردہ قیادت پر شو آف ہینڈز کر کے دیکھتے ہی دیکھتے انٹر پارٹی الیکشن کرا لیے گئے اور یہی چمتکار تحریک انصاف کے گلے پڑ گیا
تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات کا 2021ء میں حکم دیا، چیف الیکشن کمشنر کو بھی تحریک انصاف نے ہی لگایا تھا لیکن تحریک انصاف نے سستی دکھائی، بروقت انتخابات نہیں کروائے اور بعدازاں کرونا کا بہانہ بنایا، پھر دوبارہ 2022ء میں حکم ہوا لیکن تحریک انصاف نے دوبارہ سستی دکھائی پھر 2023ء میں جب الیکشن کمیشن کی آخری وارننگ پرانتخابات کروائے تو ایسے انتخابات ہوئے جن میں نہ کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے لئے کوئی فارم بنایا اور نہ ہی رسمی انتخابات کے لئے کوئی طریقہ ترتیب دیا گیا ۔ اس قدر بھونڈے انداز میں معاملہ ہینڈل کیا گیا کہ انتخابات کے لئے اسلام آباد کی بجائے پشاور کے ایک گاوں کو مرکز بنایا اور بلامقابلہ اپنی مکمل تنظیم کھڑی کردی۔دیکھا جائے تو یہ سارا معاملہ ہی غلط ہے لیکن تحریک انصاف کا بھی اس پر ایک موقف موجود ہے کہ باقی پارٹیوں میں بھی تو انٹراپارٹی انتخابات ایسے ہی ہوتے ہیں۔
یہ بھی سچ یے لیکن ایک بنیادی فرق ہے۔ وہاں بیشک انتخابات کے نتائج طے ہوں لیکن رسمی طور پر ہی کم از کم مخالف امیدوار کو انتخابات لڑنے کا موقع دیا جاتا ہے، کاغذات نامزدگی دئے جاتے ہیں اور پارٹی انکے الیکشن لڑنے کے حق کو صلب نہیں کرتی۔ یہ بالکل حقیقت اپنی جگہ موجود یے کہ دیگر جماعتوں میں بھی چئیرمین یا بانی ہی سب کچھ طے کرتا ہے لیکن پھر یہ فرق کم از کم ضرور موجود ہے کہ رسمی طور پر ہی سہی لیکن وہاں انتخابات ہوتے ہیں۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ اکبر ایس بابر تحریک انصاف کے رکن نہیں اور اس معاملے پر پارٹی ٹویٹ کرچکی ہے۔رکن ہونا اور بانی ممبر ہونا بالکل مختلف ہے، عدالت نے 2017ء میں تسلیم کیا کہ تحریک انصاف اکبر ایس بابر کو ناراضگی کے باوجود پارٹی کا رکن تصور کیا جائے گا۔ صرف اکبر ایس بابر ہی نہیں مزید لوگ بھی انٹرا پارٹی الیکشن میں کھڑے ہونا چاہتے تھے جن کو موقع نہیں ملا حالانکہ الیکشن کمیشنر نے اس سے قبل تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کے متعدد بار نوٹس جاری کیے کیونکہ 2002ء کے بعد تحریک انصاف میں باقاعدہ باضابطہ انٹراپارٹی الیکشن نہ ہوئے تھے اور الیکشن کمیشن انٹرا الیکٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم بھی کیاتھا
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائض عیسی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پی ٹی ائی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزامات لگاتی کرتی ہے کیا پی ٹی ائی نے چیف الیکشن کمیشنر کا تقرر خود نہیں کیا تھا ؟پی ٹی ائی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی؟ پی ٹی ائی اگر الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے اور پی ٹی ائی کا اپنا الیکشن سوالیہ نشان بن گیا ہے ؟
یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کسی بھی ادارے عدالت کی ہدایت اور حکم کو خاطر میں نہ لاتے تھے جبکہ انہوں نے چار سالہ دور حکومت میں اپنے ہی حکم کو تمام تر آئین اور قانون پر بالا تر سمجھا حکومت میں ان کا حکم چلتا تھا اور دستخط صدر علوی کے ہوتے تھے اس کے علاوہ عمران خان خود الزامات عائد کرتے چلے ارہے ہیں کہ ان کی حکومت کے فیصلے جنرل باجوہ کرتے تھے اگر واقعی وزیراعظم آفس جنرل باجو کے حکم پر چلتا تھا تو یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعظم ہاؤس ان کی مرشد بشریٰ بی بی کے کے حکم پر چلتا تھا
عدالت عالیہ کے اس فیصلے پر پاکستان تحریک انصاف کے سابق چیئرمین بیرسٹر گوہر نے مایوسی کا اظہار کیا اور اس فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ انصاف ہوتا نظر انا چاہیے تھا جبکہ الیکشن کمیشن پارٹی بن چکا ہے معروف تجزیہ نگار مطیع اللہ جان اس سے قبل یہ کہہ چکے ہیں ‏انٹرا پارٹی الیکشن کی بنیاد پر پوری پارٹی کو الیکشن سے آؤٹ کرنا اور نشان واپس لینا کہاں کا انصاف ہے آپ جرمانہ کر دیں،یہ ایسے ہی جیسے کوئی سپریم کورٹ کے باہر سے کوئی ترازو کا نشان اٹھا کے پھینک دے اور کہے یہ نشان نہیں ہوگا، کیا آج تک کسی دوسری سیاسی جماعت کی ایسی سکروٹنی ہوئی ہے جیسی پی ٹی آئی کی ہوئی؟ ن لیگ میں تو باقاعدہ تاج پوشی ہوتی ہے۔
پی ٹی ائی کی قیادت نے متبادل پلان تیار کیا تھا کہ بلا نہ ملنے کی صورت میں پی ٹی ائی نظریاتی پارٹی کے ٹکٹ جاری کیے جائیں گے اور” بلے باز "کا انتخابی نشان حاصل کیا جائے گا لیکن پی ٹی ائی کی قیادت شاید یہ بھول گئی کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو وہ مورد الزام ٹھہرا رہی ہے انہی پارٹی میکرز نے غبارے میں جو ہوا بھری وہ نشتر چلائے بغیر ایک سوئی کی نوک سے نکال دی اسی لیے بلا نہیں تو بلے بازی کا نیا پلان بھی ناکام بنا دیا گیا اور تحریک انصاف نظریاتی پارٹی کے چیئرمین اختر ڈار نے اپنی پریس کانفرنس میں اس پلان کو مسترد کر دیا اور کہا کہ پی ٹی ائی کی قیادت سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا
عدالت عالیہ کے فیصلے پرتبصرہ کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر حسین شاہ کا کہنا ہے کہ میں ذاتی طور پر چاہتا ہوں کہ تحریک انصاف کو بلے کا انتخاب نشان ملنا چاہیے تھا لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے خواجہ آصف نےاس فیصلہ خوش ائند کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ائین اور قانون کے مطابق ہے لیکن سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک الرٹ ہے خواجہ آصف نے ایک حقیقت اور ایک خدشہ کا اظہار کیا ہے کیونکہ ماضی میں سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن کاغزی کاروائی پورے کرنے کے لیے کرائے جاتے رہے اور یہ تاثر عام ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہے بلکہ موروثی سیاست اور جانشینی کا غلبہ ہے اور برائے نام پارٹی الیکشن کرائے جاتے ہیں اس فیصلے کی رو سے اب سیاسی جماعتوں کو اپنے اندر جمہوریت کو مکمل طور پر رائج کرنا پڑے گا اور انٹرا پارٹی الیکشن کے تمام ضابطوں کو پورا کرنا پڑے گا
"بلے "کا انتخابی نشان نہ ملنا پی ٹی ائی کی قیادت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ عدالت عالیہ کے حالیہ فیصلے کے تحریک انصاف مکمل طور پر انتشار کا شکار نظر آتی ہے اور قیادت کا بحران پیدا ہو چکا ہے پی ٹی ائی مکمل طور پر انتخابات 2024ء سے آؤٹ ہو چکی ہے اور اس کے امیدوار آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے پی ٹی آئی کے آؤٹ ہونے سے انتخابی نتائج پر اثر پڑے گا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہ جائے گی اور یہ بھی خدشہ ہے کہ آئندہ دور حکومت میں پی ٹی ائی کو مزید سخت حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ مسلم لیگ کو کھلا میدان مل چکا ہے اور اب الیکشن میں اس کا مقابلہ پیپلز پارٹی سے ہوگا تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ٹی ائی کے جیتنے والے آزاد اراکین اسمبلی ن لیگ کے خلاف پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں اس صورت میں مزید مخصوص نشستیں بھی پیپلز پارٹی کو حاصل ہوں گی اس طرح عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے حکومت سازی میں مسلم لیگ سے زیادہ پاکستان پیپلز پارٹی کو فائدہ مل سکتا ہے

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button